• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اعزاز ایک بار پھر ہماری سپریم کورٹ ہی کو جاتا ہے کہ اس نے حال ہی میں ہدایات جاری کی ہیں کہ ملک میں مردم شماری کرائی جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں آخری مردم شماری1998میں کرائی گئی تھی۔ اب تقریباً18سال مکمل ہورہے ہیں کہ اس عرصے کے دوران ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی۔ کئی اقتصادی اور دیگر ماہرین کی رائے ہےکہ آج ہماری ملکی معیشت کاجو حال ہوگیا ہے تواس کی ایک بڑی وجہ مردم شماری کا نہ ہونا ہے۔ جو اس عرصے کے دوران پاکستان میں اقتدار میں آنے والے حکمرانوں کی ذہنی سطح کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جناب جب آپ کو پتہ ہی نہیں کہ10سال کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں آبادی میں کیا تبدیلی آئی ہے تو آپ بہتری کے لئے کیسے پالیسیاں وضع کر سکیں گے۔ علاوہ ازیں خود آئین کے تحت قومی اسمبلی میں صوبوں کو نشستیں مختص کرنے کا فیصلہ بھی مختلف صوبوں کی آبادی کے تناسب سے کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی این ایف سی ایوارڈ کے تحت مختلف صوبوں کے لئے ترقیاتی رقمیں مختص کرنے کا براہ راست تعلق بھی آبادی کے تناسب سے ہے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ شماریات ڈویژن جو مردم شماری کراتی ہے کے اعلیٰ افسران کوبھی اس کا کوئی احساس نہیں تو اس سلسلے میں کیا مثبت توقع رکھی جاسکتی ہے۔ میں یاد دلائوںگا کہ کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران شماریات ڈویژن کے سربراہ نے مردم شماری کی اہمیت کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئےاس بات کو تسلیم کیا کہ اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت ہر ملک ہر دس سال کے بعد مردم شماری کرانے کا پابند ہے۔ یہ رائے ظاہر کی تھی کہ اگر مردم شماری بالکل نہ کرائی جائے تو کیا حرج ہے۔ موجودہ سپریم کورٹ نے تو ہدایات جاری کی ہیں کہ ملک میں فوری طور پر مردم شماری کرائی جائے۔ جبکہ سپریم کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 2011 میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرتے وقت بھی مردم شماری کرانے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ اس وقت کی سپریم کورٹ نے مردم شماری کرانے پر زور دیتے ہوئے ایک رولنگ کے ذریعے ہدایات بھی جاری کی تھیں کہ مردم شماری سے پہلے چند اور اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے اس وقت یہ ہدایات خاص طور پر کراچی شہر کے کئی مسائل کے حوالے سے بھی دی تھیں۔ اس وقت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے حکومت کی توجہ خاص طور پر اس طرف مبذول کرائی تھی کہ نہ فقط انتخابات کرانے سے پہلے بلکہ مردم شماری کرانے سے پہلے بھی ملک خاص طور پر سندھ اور اس کے بڑے شہر کراچی میں لاکھوں کی تعداد میں آباد غیرقانونی غیر ملکی تارکین وطن کے بارے میں چھان بین کی جائے اور جو تارکین وطن غیر قانونی طور پر آباد ہیں ان کو فوری طور پر کیمپوں میں رکھا جائے اور بعد میں ان کو اپنے اپنے ملکوں کو واپس بھیجا جائے۔ اس رولنگ کے ذریعہ سپریم کورٹ کےاس بنچ نے اس بات کا بھی نوٹس لیاتھا کہ کراچی میں جو حلقے بنائے گئے ہیں وہ غیرقانونی طور پر نسلی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں یہ حلقے متعلقہ قوانین کے مطابق MERITS پر بنائے جائیں۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے بنچ نے ہدایات جاری کی تھیں کہ انتخابات کرانے سے پہلے غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے اور کراچی میں قانون کے مطابق نئے سرے سے حلقہ بندیاں بھی کی جائیں اس رولنگ میں سپریم کورٹ کےبنچ نے2011اور2012میں اس بات کا بھی ذکر کیاتھا کہ کراچی میں روینیو سرکل بھی نسلی بنیاد پر بنائے گئے ہیں۔ اس لئے یہ بھی ہدایات جاری کی تھیں کہ روینیو سرکل بھی قانون کے مطابق نئے سرے سے تشکیل دیئے جائیں۔کراچی میں آباد لاکھوں غیر قانونی غیر ملکی تارکین وطن میں ایک بڑی تعداد افغان مہاجرین کی ہے جو خاص طور پر کراچی کے نزدیک سپر ہائی وے کے دونوں طرف اپنی آبادیاں قائم کرکے آباد ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی ایک بڑی تعداد ملیر اور کراچی کے مختلف اضلاع کے اردگرد بھی کچی آبادیاں قائم کرکے آبادہے۔ ہمارے امن قائم کرنے والے اداروں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ان افغان مہاجرین کے ملوث ہونے کے بارے میں قوی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اب تو سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی افغان مہاجرین کی آباد کاری بڑھتی جارہی ہے۔ اب حکومت اور امن وامان قائم کرنے والے اداروں نے اس کا نوٹس بھی لیا ہے۔ مگر سندھ اور خاص طور پر کراچی میں آباد جو غیر قانونی تارکین وطن ہیں ان میں صرف افغان مہاجرین ہی شامل نہیں ہیںان میں بنگلہ دیش، ایران، ہندوستان اور دیگر ملکوں سے آنے والے بھی شامل ہیں۔ اس بات کی بھی بار بار متعلقہ حلقوں سے تصدیق ہوتی رہی ہے کہ ان غیر قانونی تارکین وطن کو نہ صرف شناختی کارڈجاری کئے گئے ہیں بلکہ انکے نام کراچی کی انتخابی ووٹر فہرستوں میں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا یہ غیر قانونی تارکین وطن کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں انتخابات پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں ان غیرقانونی تارکین وطن کو کھانے کی اشیاء کے علاوہ ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کی وجہ سے سندھ کے وسائل پر بے پناہ بوجھ پڑ رہا ہے۔ یہ ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے کہ وہ ان غیر قانونی تارکین وطن کو فوری طور پر ان کے اپنے اپنے ملک واپس بھجوائے۔ اگر وفاقی حکومت ایسا نہیں کرتی تو اس کا فرض ہے کہ سندھ میں آباد ان غیر قانونی تارکین وطن کو متعدد سہولتیں فراہم کرنے کی وجہ سے سندھ کی معیشت پر پڑنے والے اس مالی بوجھ کو کم کرنے کیلئے ہر سال سندھ حکومت کو خطیر رقم فراہم کرے۔ یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایک سے زیادہ بار اس بات کی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ الیکشن کمیشن، حکومت سندھ کے تعاون سے کراچی میں نئے سرے سے حلقہ بندیاں تشکیل دینے کے سلسلے میں پلان تیار کرے۔ 26نومبر 2015کو ہونے والی سماعت کے دوران بھی سپریم کورٹ کے پانچ ممبران پر مشتمل بنچ نے ہدایات جاری کیں کہ کراچی میں حلقہ بندیاں اس طرح نئے سرے سے تشکیل دی جائیں کہ یہ حلقے Mixed آبادی پر مشتمل ہوں۔ مزید خوش آئند بات یہ ہے کہ منگل کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ہدایات جاری کی ہیں کہ کمشنر کراچی ڈی جی رینجرز، آئی جی پولیس، سیکرٹری داخلہ اور دیگر ایجنسیوں کے تعاون سے 15 سے زائد ٹیمیں تشکیل دیں جو غیر قانونی تارکین وطن کی رجسٹریشن کا عمل شروع کریں جس کیلئے محکمہ داخلہ کی طرف سے تیار کیا گیا پروفارما ان کو دیا جائیگا۔ امید ہے کہ وزیر اعلیٰ اس آپریشن کی خود نگرانی کریں گے اور سندھ اور اس کے بڑے شہر کراچی کی غیر قانونی تارکین وطن کے اس عذاب سے جان چھڑائیں گے۔


.
تازہ ترین