• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سانحہ کوئٹہ پر پوری پاکستانی قوم غمزدہ دکھائی دے رہی ہے۔کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشتگردی کے نتیجے میں تادم تحریر61افراد کی شہادت اور سینکڑوں افراد کے زخمی ہونے کے المناک واقعہ نے وطن عزیز کی فضا کو سوگوار کردیا ہے۔کوئٹہ ایک بار پھر لہولہوہے۔موجودہ رواں سال میں وہاں دہشتگردی کا یہ چوتھا بڑاحملہ ہواہے۔ڈھائی ماہ قبل بھی8اگست کو وکلابرادری کوٹارگٹ کیاگیا تھا۔اب قانون کے محافظوں کونشانہ بنایاگیا ہے۔8اگست کوکوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ اورسول اسپتال حملے کے دوران70وکلاء اور دوصحافی لقمہ اجل بنے تھے۔بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں پولیس پر حملے بھی معمول بن چکے ہیں۔یوں لگتاہے کہ ملک دشمن بیرونی قوتوں نے بلوچستان کو اپنا اہم ہدف بنالیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یکے بعد دیگرے وہاں دہشتگردی کی وارداتوں کانہ رکنے والاسلسلہ جاری ہے۔بیرونی دہشتگردعناصر نے اس بار کوئٹہ میں نرم ٹارگٹ کونہیں بلکہ سخت ٹارگٹ کونشانہ بنا یاہے۔سانحہ کوئٹہ نے ایک بار پھرناقص سیکورٹی سے متعلق کئی سوالات اٹھادیئے ہیں۔چاہے یہ دہشتگردافغانستان سے آئے یا پھر بھارت سے آئے، سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہماری انٹیلی جنس،سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں تھے؟۔پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ حملے کے بارےمیں کہاجارہا ہے کہ اس حوالے سے بلوچستان حکومت کو پیشگی اطلاعات تھیں مگر اس کے باوجود صوبائی حکومت نے کوئٹہ میں اہم اور حساس مقامات کی سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہیں کیے؟۔صوبائی وزیر داخلہ سرفرازبگٹی کایہ کہناہے کہ اس افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کروائی جائیں گی اور ناقص سیکورٹی کے مرتکب افراد کوسخت سزادی جائے گی تاہم بلوچستان حکومت اور اس کے صوبائی وزیرداخلہ کی جانب سے محض اس ضمن میں زبانی جمع خرچ سے اب کام نہیں چلے گا۔وفاقی حکومت اور بلوچستان کے حکام کو اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگاکہ سیکورٹی کے نظام میں آخرکہاں کوتاہیاں موجود ہیں۔بلوچستان میں61پولیس اہلکاروں کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوپارہا؟۔کیا اس میں کچھ نقائص موجود ہیں اور کیا قومی لائحہ عمل کو سب کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے اس پر ازسرنوغوروفکر ضروری ہے؟ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے روح فرساواقعہ کے بعد20نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں سول عسکری قیادت کے پہلے اجلاس میں ہی جمعیت علمائے اسلام(ف)کے سربراہ مولانافضل الرحمان،جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق اور دیگر سیاسی قوتوں کی جانب سے اس پر تحفظات کااظہارکیاگیا تھا مگر’’ وائے ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا‘‘کے مصداق مسلم لیگ(ن)کی حکومت نے اس حوالے سے سنجیدہ اور ذمہ دارانہ طرزعمل کامظاہرہ نہیں کیا جس کا نتیجہ ہمیں آج یہ بھگتنا پڑرہا ہے کہ کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن ختم ہونے کانام نہیں لے رہا۔آپریشن کی آڑ میں مدارس پر یلغار کیے جانے پر دینی حلقوں اور علمائے کرام کے اندربھی شدید تشویش پائی جاتی ہے۔اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین کو یقین دہانی کروائی ہے کہ آپریشن کے نام پر مدارس کے گردگھیراتنگ نہیں کیاجائے گا مگر افسوس ایساہو نہیں ہوسکا۔ پنجاب سمیت دیگرصوبوں سے ایسے ہزاروں افراد کو بلاجوازگرفتار کرلیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں۔ ماضی میں کبھی بھی مسجدوں اور مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی گئی۔دینی مدارس اور اسلام کا دہشت گردی سے تعلق جوڑنا افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ نائن الیون کے خودساختہ واقعہ سے قبل پاکستان میں حالات بہتراور پُر امن تھے۔جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیااور وہاں لاکھوں افغانیوں کوقتل کیا تو اُس کے ردعمل میں افغان طالبان نے شدید مزاحمت کی ۔آخر کار امریکہ کو افغانستان میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوناپڑا۔امریکی ونیٹوفورسز اپنا مشن مکمل کرکے کابل سے روانہ ہوچکی ہیں۔اب محض دس ہزار امریکی فوجی افغان حکومت کی حفاظت کے لئے وہاں موجود ہیں۔وہ بھی کسی بھی وقت افغانستان سے کوچ کرسکتے ہیں۔چونکہ امریکہ کو افغان سرزمین پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑااس لئے اب اُس نے بھارت کو ساتھ ملاکر افغانستان اور پاکستان میں دہشتگردی کابازار گرم کیا ہوا ہے۔ اس وقت افغان خفیہ ایجنسی اور بھارتی تنظیم ’’را‘‘کابل میں بیٹھ کر بلوچستان کے حالات کو خراب کررہی ہیں۔کوئٹہ میںپولیس ٹریننگ سینٹرمیں ہونے والاحالیہ حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیزنے بھی واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ بھارت پاکستان میں عدم استحکام کے لئے دہشتگردی کی ریاستی سطح پر سرپرستی کررہاہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ ایک طرف یہ ثابت ہوچکا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی بھارت کروارہا ہے لیکن دوسری طرف گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور بھارتی ایجنٹ کل بھوشن یادیوکے اہم اور نازک معاملے کونہیں اٹھایا۔اقوام متحدہ میںوزیر اعظم نوازشریف کی کشمیر ایشوپر گفتگوخاصی موثر اور بھرپور تھی اگر وہ اپنی تقریرمیں بلوچستان میں بھارتی ریشہ دوانیوں کا ذکر بھی کرتے اورہندوستان کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے تو آج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے پاس اقوام متحدہ میں خطاب کاایک اچھاموقع تھا جہاں وہ عالمی برادری کواپنا ہمنوابناکر ہندوستان کے لئے مسائل پیداکرسکتے تھے۔ طرفہ تماشایہ ہے کہ پچھلے دنوں بیجنگ اور انڈیا میں برکس کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم نے ایجنڈے سے ہٹ کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی ۔ان دونوں کانفرنسوں کا ایجنڈا اقتصادی نوعیت کا تھا اور خطے کی سیاسی صورتحال اور متنازع امور پر بات نہیں ہوسکتی تھی مگر بھارتی حکمرانوں کی عیاری کایہ عالم ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات اور جھوٹے پروپیگنڈے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ حالانکہ چینی صدر شی چن پنگ نے دونوں کانفرنسوں میں نریندرمودی کوآڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کھل کر پاکستان کا مقدمہ لڑا اور مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان پر بے سرو پا الزامات شامل نہ ہونے دئیے۔ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ بھارت بلوچستان کے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانا چاہتا ہے۔وہ مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی مظالم سے توجہ ہٹانے کے لئے بلوچستان میں امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتا۔ وزیر اعظم نوازشریف کو یہ تاثر اب ختم کرنا ہوگاکہ اُن کی حکومت بھارتی حکمرانوں کے لئے کوئی سافٹ کارنررکھتی ہے؟ بھارت کے بارے میںبات کرتے ہوئے اب ہمارے ارباب اقتدار کی زبان نہیں لڑکھڑانی چاہئے۔ہندوستان چاروں طرف سے ہمارے اوپر حملہ آور ہے۔وہ کنٹرول لائن پر مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کررہا ہے۔افغانستان میں’’را‘‘کے ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان میں دہشتگردی کی وارداتیں ہورہی ہیں۔رینجرزکے ہاتھوں گرفتارہونے والے ایم کیوایم کے کئی کارکنان بھی ہندوستان میں ٹریننگ اور فنڈزلینے کا اعتراف کرچکے ہیں۔اسی تناظر میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو ملک وقوم کے وسیع ترمفاد میں قومی یکجہتی اور اتحاد کاثبوت پیش کرنا چاہئے۔پاکستان اس وقت سیاسی عدم استحکام اور کسی نئے مارشل لا کامتحمل نہیں ہوسکتا۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان موجودہ سیاسی تنائوکوختم ہونا چاہئے۔ پاناما لیکس کامعاملہ سپریم کورٹ میں پیش ہوچکا ہے۔ یکم نومبر کوعدالت عظمیٰ نے تمام فریقین کو سماعت کے لئے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔اب سیاسی قیادت کوسپریم کورٹ پر اعتماد کرناہوگا کیونکہ ریاستی اداروں پر عدم اعتماد کرکے ملکی مسائل کا کوئی حل نہیں نکالا جاسکتا۔ تحریک انصاف نے2نومبر کو اسلام آباد بندکرنے کی کال دی ہے۔اُسے بھی سانحہ کوئٹہ اور موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر اپنے احتجاج کوصرف جلسہ عام کی حد تک ہی رکھنا چاہئے۔پُرامن احتجاج کرنا اور جلسے جلوس کرنا ہرسیاسی پارٹی کا آئینی اور جمہوری حق ہے لیکن احتجاج کادائرہ کار بھی آئینی اور جمہوری ہوناچاہئے۔


.
تازہ ترین