• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلاول بھٹو نے کچھ عرصہ پہلے ستمبر میں ’’دمادم مست قلندر‘‘کا اعلان کیا تھا۔اب ستائیس دسمبر کو دمادم مست قلندرکاوقت مقررکیا ہے ۔پتہ نہیں بلاول بھٹو ’’دمادم مست قلندر‘‘ کسے کہتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی سندھ کے لوگ عمران خان کے اسلام آباد میں’’ دمادم مست قلندر‘‘کو مسلسل غیر آئینی کہے جا رہے ہیں ۔ممکن ہے بلاول بھٹو کا دمادم مست قلندر آئینی ہو ۔73 کے آئین میں کوئی ایسی شق موجود ہو۔نہیں بھی ہوگی انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بڑے بڑے ماہرین ِآئین ان کے مشیر ہیں وہ آئین سے کچھ بھی نکال سکتے ہیں ۔جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے بلاول بھٹو کو’’ دمادم مست قلندر ‘‘کی سعادت مشکل سے ہی نصیب ہوگی ۔لگتا ہےدو نومبر کو کچھ ہورہا ہے ۔اس سے بڑا’’ دمادم ‘‘شاید ہی پاکستان کی تاریخ میں کبھی ممکن ہوسکے ۔ اور اب تو ڈاکٹر طاہر القادری کا بھی اس احتجاج میں شرکت کا امکان ہے۔صرف میری نہیں سینکڑوں لوگوں کی نینداڑ گئی ہے ۔
میں پہلے بھی سو نہیں پارہا تھا کیونکہ کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کی خبریں سینہ چھلنی کر چکی تھیں ۔یہ بھی بدقسمتی ہے موجودہ حکومت کی کہ جب اُس کے خلاف کوئی تحریک شروع ہوتی ہے تو کہیں نہ کہیں دہشت گردی کا حملہ ہوجاتا ہے یا بھارت بائونڈری لائن پرفائرنگ شروع کردیتا ہے۔جس کی وجہ سے حکومت کی پوزیشن عوام میں کچھ اور خراب ہوجاتی ہے۔پچھلے دنوں جو ایک انگریزی اخبار کو غلط خبر فیڈ کی گئی اس کابھارت کو غیر محسوس انداز میں فائدہ پہنچاتھا۔لگتا ہے اس وقت شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کےلئے پنجاب میں رینجرز کی آمد بہت ضروری ہے۔وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف فوری طورپرینجرزکوپنجاب میں بلا لیں وگرنہ نومبرکے مہینے میں توپنجاب میں کارروائی ہر صورت میں ہونی ہے ۔
دو نو مبر کے دمادم مست قلندر کوروکنا موجودہ حکومت کےلئے تقریباًناممکن ہو چکاہے۔بے شک حکومت نے امن وامان کیلئے فوج کوبلالیا ہے مگرنون لیگ کے رہنما کسی تیسری طاقت کا بدستور ذکر کرتے آرہے ہیں ۔ اُسی کو امپائر کی انگلی کہہ رہے ہیں حیرت ہے کہ پھر اپنی رکھوالی کےلئے انہی کو بلاتے ہیں ۔تاثر ہے کہ جلسے جلوسوں میںاسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص بھی اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلا سکتا۔77 کی تحریک میں اسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کا حکم ماننے سے انکار کردیا ابھی پچھلے دنوں ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنے کے خلاف بہت سے پولیس افسران نے کارروائی کرنے سے انکار کیا تھا۔سو اسلام آباد کی پولیس سے ایسی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے عزیزوں رشتہ داروں پر فائرنگ شروع کردے ۔یقیناََ پنجاب پولیس بھی حکومت کا کوئی غیرقانونی حکم نہیں مانے گی ہاں اگر پنجاب پولیس کی وردی میں کچھ غنڈے یا دہشت گردکوئی ایسی کارروائی کرجائیں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جنرل راحیل شریف نے قوم کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ کا وعدہ کیا ہوا ہے سو دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے بغیر ان کے جانےکے کسی امکان کوزیادہ تر لوگ تسلیم کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں ۔دو نومبر کے دھرنے میں لوگوں کی ایک بڑی اکثریت کی خواہش ہوگی کہ کسی طرح جنرل راحیل شریف پردبائو ڈالا جائے کہ وہ ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے لیں ۔دو نومبر کے دھرنے کےلئے اسلام آباد فوج بلائی گئی ہے۔بڑی سطح پر گرفتاریوں کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔یہ فیصلہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں نے کیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کو گرفتار کرتا ہے ۔عین ممکن ہے عمران خان کو گرفتار کرنے والے کچھ وزیر خود گرفتار ہوجائیں ۔کچھ نیشنل سیکورٹی کی خبر کے سلسلے میں اور کچھ انتہا پسندوں سے تعلقات کی بنیاد پر ۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے قومی سلامتی کے اجلاس میں دو وزرائے اعلیٰ کی موجودگی کی طرف انگلی اٹھائی ہے ۔وہ شاید چاہتے ہیں کہ اس خبر کے سلسلے میں کسی وزیر اعلیٰ کو بھی گرفتار کیا جائے ۔انہوں نے یہ بھی کہا ہےکہ ’’یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ ملک میں دوبارہ دہشت گردی کا آغاز ہوجائے ۔‘‘ان کے کہنے کے چند گھنٹوں بعد کوئٹہ میں دہشت گردی کا سوئچ آن ہوگیا ۔اللہ کرم کرے۔دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد کا امکان ہے جو قصاص مانگتے ہیں۔اور مانگتے بھی اسٹیبلشمنٹ سے ہیں کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا ۔
اگرچہ عمران خان کا دھرنا نومبر کے مہینہ میں ہے مگر وزیر اطلاعات پرویز رشید کے نزدیک حکومت کےلئے اکتوبر کا مہینہ بہت بھاری ہے ابھی اس مہینے میں صرف تین دن باقی ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ’’اس وقت اکتوبر کا مہینہ چل رہا ہے۔اکتوبر کا مہینہ پاکستانی وزرائے اعظم کے خلاف محلاتی سازشوں کا مہینہ ہے۔لیاقت علی خان کو اسی مہینے قتل کیا گیاتھا۔ اکتوبر 1991وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف سازش کی گئی تھی۔سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قافلے پر بھی اکتوبر2007 میں قاتلانہ حملہ ہواتھا۔اس وقت اکتوبر 2016چل رہا ہے اور سازشوں کا سلسلہ جاری ہے ۔‘‘
تحریک انصاف کا اس سلسلے میں نقطہ نظر تھوڑا سا مختلف ہے ۔ اس کے لوگ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے احتجاج کو سازش قرار دیناقطعاً درست نہیں ہے۔
تحریک انصاف موجودہ حکومت کے خلاف جو کچھ کر رہی ہے ۔سرعام کر رہی ہے ۔چھپ کر کچھ نہیں کررہی ۔ تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ ہونا چاہئے تواس میں سازش کہاں سے آئی۔تحریک انصاف اس مقصدکیلئے دو نومبر کو دسلاکھ لوگ اسلام آباد میں جمع کررہی ہے اور وہ لوگ اس وقت تک اسلام آباد بند رکھیں گے جب تک نوازحکومت کا خاتمہ نہیں ہوجاتا یا نوازشریف اپنے آپ کو خود احتساب کےلئے پیش نہیں کردیتے ۔تحریک انصاف کے لوگوں کا خیال ہے کہ سازشیں وہ لوگ کرتے ہیں جو اعلانیہ کچھ نہ کرسکیں اور تحریک انصاف اعلانیہ نواز حکومت کےخاتمہ کی تحریک چلا سکتی ہے اور چلارہی ہے۔لگتا ہےدو نومبر کو واقعی دما دم مست قلندر ہوگا۔


.
تازہ ترین