• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے عرفات کے میدان میں حاضری کے بعد منیٰ میں موجود تھے کہ اطلاع ملی رمی جمرات کے قریب حادثہ ہوگیا اور ابتدائی طور پر اس حادثے میں تین سو سے چار سو افراد کی شہادت کی خبر ملی تو ایک غم ناک کیفیت ہر طرف طاری ہوگئی ۔ہر شخص غمزدہ نظر آنے لگا اور ہر زبان پر اللہ کی حمدو ثناء اور استغفار کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔منٰی میں جس مقام پر ہم تھے وہاں پر وزارت داخلہ اور وزارت حج کے بعض ذمہ داران تک رسائی ممکن ہوئی تو سب سے پہلے اس حادثے کا سبب اور اس کے بعد نقصان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ۔انتہائی افسوسناک لمحات میں جب یہ معلوم ہوا کہ اس حادثے میں بعض پاکستانی بھی شہید ہوئے ہیں تو تشویش میں اور اضافہ ہوا ۔حقیقت حال یہ ہے کہ رمی کیلئے جمرات کے راستوں اور جمرات کی جگہ کو جتنی توسیع سعودی حکومت نے دی ہے اس کے بعد اس طرح کے حادثے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ حج کا میدان ہو،منیٰ ،مزدلفہ ہو یا بیت اللہ کا طواف ہو جو بدنظمی دیکھنے میں آتی ہے اس کے بعد کسی بھی کسی قسم کے حادثے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔منٰی میں موجود گی کے دوران اور اس کے بعد جو معلومات حاصل ہوئیں اس میںاس حادثے کا بنیادی سبب وہ بدنظمی اور بے صبری نظر آتی ہے جو پوری امت مسلمہ میں موجود ہے اور اس کا انکار ممکن نہیں ہے۔ایک طرف سانحہ منٰی اور اس کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال تھی اور دوسری طرف افواہوں کا نہ رکنے والا سلسلہ اور سوشل میڈیا اور بعض ذرائع ابلاغ پر بغیر تحقیق کے نشر کی جانے والی وہ خبریں جس سے ناصرف مزید مسائل میں اضافہ ہوا بلکہ حوصلے بھی پست ہوئے ۔ہمارا روز اول سے مؤقف یہی ہے کہ سعودی حکومت اور شخصیات ایسی نہیں ہیں کہ ان سے غلطی نہ ہوسکے یا ان پر تنقید نہ ہوسکے لیکن بغیر تحقیق کے کسی فرد ،ادارہ یا حکومت کو مجرم قرار دے کر ان پر پتھر برسانا شروع کردینا یہ بھی درست نہیں ہے۔حادثہ منیٰ کے جتنے بھی اسباب تلاش کریں اور اس قسم کے حادثات کی اگر تفصیل دیکھیں تویہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں پر بیس ،پچیس لاکھ افراد ہوں وہاں پر اگر بدنظمی ہوجائے تو اسے سنبھالنا آسان نہیں ہوتا ۔جس مقام پر یہ حادثہ ہوا ہے وہ الجزائر کے حجاج کے مکتب کے قریب تھا اور یہ وہ جگہ تھی جہاں پر سڑکوں کو تین روز پہلے بند کردیا جاتا ہے اور حجاج کرام وہاں پر اپنی راحت و آرام کیلئے ڈیرے ڈال لیتے ہیں ۔ایک طرف زمین پر بیٹھے ہوئے ہزاروں حجاج کرام ہیں اور دوسری طرف رمی کرکے واپس آنے والے حجاج ہیں اور ان حجاج کو جن راستوں سے واپس اپنے خیموں تک جانا تھا اچانک ان راستوں پرمخالف سمت سے پولیس کی اور انتظامیہ کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے ایک قافلہ نمودار ہوا جس کی وجہ سے حجاج کرام کے درمیان افرا تفری پھیلی اور اس افرا تفری کا ایک سبب وہ خوف بھی تھا جو گزشتہ کئی ہفتوں سے بعض عالمی دہشتگرد تنظیموں کی طرف سے پیدا کیا جارہا تھاکہ وہ حج کے موقع پر تخریب کا ری کریں گی ۔عینی شاہدین حکومتی ذرائع اس سے آگے کچھ بتانے سے قاصر ہیں لیکن حتمی بات اسی وقت کہی جاسکتی ہے جب سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر داخلہ امیر محمد بن نائف کی طرف سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی اپنی تحقیقات کو منظر عام پر لائے گی۔حادثہ منٰی کے بعد افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بعض پرانی تصویروں کو سعودی عرب کی حکومت کیخلاف پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔بے بنیاد الزامات لگاکر نفرت کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اس نفرت کی فضاء سے امت مسلمہ اور پاکستان کو کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی کچھ حاصل ہوگا ۔ایران کے بعض ذمہ داران کی طرف سے ابتدائی طور پر سعودی عرب کی حکومت پر تنقید کی گئی لیکن ایران کے وزیر صحت نے جدہ پہنچ کر سعودی عرب کی حکو مت کی تعریف کرتے ہوئے انتظامات کو تسلی بخش قرار دیا اور کہا کہ اس طرح کا حادثہ نہیں روکا جاسکتا۔پاکستان میں بھی ذمہ دار ذرائع ابلاغ نے اس بات کا احساس رکھا ہے اور اس بات کا احساس رکھا بھی جانا چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات دوقوموں کے تعلقات ہیں اور ہمارے سعودی عرب کے ساتھ صرف سیاسی،سفارتی اور بھائی چارے کے نہیں بلکہ مسلمانوں کے مقدسات کے احترام کے بھی ہیں۔سعودی عرب کی حکومت نے گزشتہ پچاسی سالوں سے حجاج کرام اور زائرین کی خدمت کی ہے اور یہ بات بھی قارئین کے علم میں ہونی چاہئے کہ سعودی حکومت حجاج اور زائرین سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کرتی ،سعودی حکومت کئی بار یہ بتا چکی ہے کہ حجاج کرام اور زائرین کی آمد سے ان کو مالی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ سعودی حکومت اربوں ریال حجاج کرام کی خدمت کیلئے ہرسال خرچ کرتی ہے۔اگر کہیں پر حکومت نے کوتاہی کی ہوگی تو وہ بھی منظر عام پر آجائے گی اور حال ہی میں جب حرم مکہ میں کرین کا حادثہ پیش آیا توساری دنیا نے دیکھا کہ دنیا کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک بن لادن کمپنی (جس کو اللہ کے تینوں حرم بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے )کے نا صرف ٹھیکوں کو کینسل کیا گیا بلکہ ان کے اہم ترین لوگوں کے ملک سے باہر جانے پر بھی پابندی عائد کردی ۔اس لئے عالم اسلام یہ توقع نہیں رکھتا کہ خادم الحرمین الشریفین اور ان کے ولی عہد امیر محمد نائف یا نائب ولی عہد امیر محمد بن سلمان اور ان کے ساتھی کسی مصلحت کا شکار ہوکر تحقیقات کو منظر عام پر نہیں لائیں گے یا تحقیقات میں کوئی کوتاہی رہ جائے گی۔عرب دنیا کے امور کو جاننے والے یہ بات سمجھتے ہیں کہ شاہ عبد اللہ کی وفات کے بعد شاہ سلمان اور ان کے ولی عہد امیر محمد بن نائف نے سب سے زیادہ توجہ جس طرف دی ہے وہ احتساب کا عمل ہے ۔شاہ سلمان نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد اپنی قوم کے نام پیغام میں کہا تھا کہ وہ اور ان کے وزراء ان کے خاندان ان کے ساتھی سب قابل احتساب ہیں اور اگر کوئی کسی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو اس کے خلاف ان کے اور عدالت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ۔ سانحہ منٰی کے بعد ان کا یہ کہنا کہ ہمارا فخر حجاج کرام ،زائرین،بیت اللہ اور مسجد نبوی کی خدمت ہے اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حجاج کرام اور زائرین کے ساتھ ہونے والے کسی حادثے یا واقعہ کے ذمہ داروں کو معافی نہیں ملے گی۔جب کہ میری ذاتی معلومات کے مطابق حادثے کے بعد وزیر داخلہ اور ولی عہد امیر محمد بن نائف نے مفتی اعظم سعودی عرب سے رجوع کیا کہ اگر شرعی طور پر اس حادثے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے تو وہ اس منصب سے ہٹنے کو تیار ہیں لیکن مفتی اعظم نے اپنی تفصیلی رائے میںاس بات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ولی عہد کو اپنے امور جاری رکھنے کا کہا ۔اس لئے ہمیں بھی جذباتی انداز اختیار کرنے اور تحقیق کی بجائے سوشل میڈیا پر آنے والی بے بنیاد معلومات کی بناء پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کرنا چاہئے۔جیسا کہ ایک منظم انداز میں یہ افواہ بھی پھیلائی گئی کہ حادثے کی وجہ نائب ولی عہد کا رمی جمرات کیلئے جانا تھا جن کو اللہ نے حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائی ہے وہ جانتے ہیں کہ حج کے موقع پر موجوددنیا بھر کی اہم شخصیات کیلئے رمی جمرات کا وہ ٹائم مخصوص کیا جاتا ہے جب رش نہ ہو اور ان راستوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں پر لوگ سڑکوں پر موجود نہ ہوں ۔لہٰذا اگر ہم اس راستے کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیںتویہ بات بغیر کسی توقف کے کہی جاسکتی ہے کہ یہ راستہ کبھی بھی ان راستوں میں شامل ہی نہیں رہا جہاں سے اہم شخصیات کا گزر ہوتا ہے اور نہ ہی اس راستے میں اتنی وسعت موجود ہے کہ اس راستے سے اہم شخصیات کو گزارا جائے۔لہٰذا حادثہ منٰی پر سیاست کرنے کی اور بے بنیاد الزام تراشی کرنے کی بجائے اس بات کا انتظار کیا جائے کہ اصل حقائق کیا سامنے آتے ہیں اور اس پر سعودی حکومت کیا اقدامات کرتی ہے ۔سعودی عرب کی وزارت مذہبی امورکے وزیر الشیخ صالح آل صالح نے اس حوالے سے ایک بہت ہی حوصلہ افزا بات کی ہے کہ جو حکومت اور قوم اللہ کے مہمانوں کی خدمت کرنا فخر سمجھتی ہو وہ ان کیلئے پیدا ہونے والی کسی بھی قسم کی مشکل پر کیسے راحت اور آرام سے بیٹھ سکتی ہے۔
تازہ ترین