• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ورلڈ بنک کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں اسکول جانے والے 45فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اس عمر کے ایک کروڑ دس لاکھ بچوں میں سے نصف کے قد ان کی عمر کے مطابق نہیں بڑھ رہے جبکہ پورے ملک میں مجموعی طور پر دوکروڑ طلباو طالبات اپنی خوراک کی جائز ضروریات کو پورا نہیں کر پا رہے ۔ اگر یہ کیفیت برقرار رہی تو ان بچوں کو ذہنی و جسمانی و نشو و نماپر نہایت منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔عالمی بنک کی جانب سے جمع کئے جانے والے یہ اعداد و شمار ملک کی نوجوان نسل کے لئے ایک سنگین خطرے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ بڑی افسوسناک بات ہے کہ پاکستان کی وہ شاداب زمینیں جو تقسیم برصغیر کے بعد بھی ایک طویل عرصہ تک اتنی غذائی پیداوار دیتی تھیں جو قومی آمدنی کے 57فیصد پر محیط ہوتی تھی، حکمرانوں کی ترجیحات میں تبدیلی اور زراعت کے فروغ میں عدم دلچسپی کے باعث ان کی پیداوار اب جی ڈی پی کے منفی ’’ہندسوں‘‘ تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری طرف صنعت و تجارت کا شعبہ ارباب ِ اختیار کی توجہ کے باعث ترقی کے اس مقام تک جا پہنچا ہے کہ اس سے منسلک افراد کی شان و شوکت کا یہ عالم ہے کہ ان کے دم قدم سے پرتعیش ریستوران ہر شہر میں قطار اندر قطار کھلتے نظر آتے ہیں ۔ ان دونوں طبقات کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ایک طرف دسترخوان انواع و اقسام کے کھانوں سے مزین اس طرح بچھے ہیں گویا یہاں کوئی بھوکا ہے ہی نہیں جبکہ دوسری طرف غربا کے وسیع و عریض سمندر کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کھانے والے تو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہیں لیکن ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر جس طرح کھانوں کا ضیاع ہوتا ہے وہ بھی اسی تفریق کو نمایاں کرکرتا ہے۔ یہی عدم مساوات انتہاپسندی اور شدت پسندی کوجنم دیتی ہے اس لئے حکمرانوں کو اس طبقاتی خلیج کو کم کرنے کے لئے موثر منصوبہ بندی کرنی چاہئے ورنہ یہ حالات خود ان کے لئے بھی بہت سے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

.
تازہ ترین