• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک ہم ہر مرتبہ ایک طویل آمریت سے لڑتے ہوئے تقریباََ ہر دس سال کے بعد جمہوریت کی لاش کو دفن کرتے رہتے ہیں۔ اور پھر آمریت کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یوں ہماری قومی زندگی کا سفر محض ایک دائرے میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ جس کی کوئی منزل نہیں اور ہم راستوں میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان ایک مکمل جمہوری تحریک تھی۔ جس کا بانی ایک عظیم جمہوریت پسند قانون دان تھا۔ جس نے بلٹ کی بجائے بیلٹ باکس کے ذریعے دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت کے قیام کوممکن بنایا تھا۔ قائدِ اعظم پاکستان کو ایک مکمل جمہوری اور انسانی حقوق کی محافظ ریاست بنانے کے لئے اتنے پر جوش اور کمیٹڈ (Committed)تھے کہ پنڈی سازش کیس کے ائیر کموڈور جنجوعہ اپنی کتاب Beyond The Last Rope میں لکھتے ہیں کہ ’’ ایک مرتبہ فوجی افسروں سے خطاب کے دوران فوج کی جنگی سازوسامان اور دیگر ضروریات کے حوالے سے فوجی افسروں کے اختیارات کے بارے میں قائدِ اعظم نے فرمایا‘ یاد رکھیے پاکستان میں ہر شعبے میں آخری فیصلہ سویلین قیادت کرے گی۔لیکن جمہوری عمل کے ذریعے حاصل ہونے والے اسی پاکستان میں جمہوریت کا جو حشر کیا گیا ۔ وہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد نئی مملکت کے گونا گوں مسائل اور نا تجربہ کار سیاستدانوں کی غلطیوں کے باوجود نہ صرف پاکستان نے کامیابی کے ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھا بلکہ ان کمزور جمہوری حکمرانوں کے دور میں ہی پاکستان کی حدود میں توسیع ہوئی اور فیروز خان نون کے زمانے میں گوادر کو پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔ اس وقت اگرچہ پاکستان فوجی لحاظ سے بھی کافی کمزور تھا لیکن پھر بھی انڈیا کو جراٗ ت نہ ہوئی کہ وہ پاکستان پر حملہ کرتا۔ کیونکہ منتخب جمہوری حکومتوں کو اقوامِ عالم کا اعتماد حاصل ہوتا ہے۔اور ملک کے تمام صوبے بھی حکومتی امور میں شراکت کے احساس کی وجہ سے متحد ہوتے ہیں۔ پاکستان کا محلّ ِ وقوع جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ جو بیک وقت چائنہ، بھارت ، وسطی ایشیا اور گلف کی ریاستوں کے قلب میں واقع ہے اور ماضی کی دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین بھی اس کی ہمسائیگی میں تھی۔اس لئے اپنے قریبی حریف سوویت یونین کو گھیر ے میں لینے کے لئے امریکی سامراج نے 50کے عشرے میں ہی پاکستان میں آمریت قائم کرنے کے لئے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا ۔ اور کرپشن کے نام پر ملک میں آمریت قائم کردی۔ یہ وہی دور ہے جب جنرل ایوب نے پاکستان کو امریکی فوجی اڈے مہیا کیے جن میں پشاور کے قریب بڈابیر کا ہوائی اڈا بھی شامل تھا۔ جس سے اڑنے والے جاسوس طیارے یو ٹو کو سوویت یونین نے مار گرایا ۔ اور پاکستان کو سخت وارننگ دی۔ یہیں سے پاک سوویت دشمنی اور ہند سوویت دوستی کا آغاز ہوا۔ جس نے پاکستان کے مشرقی بازو کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ ہمارا نام نہاد حلیف اور دوست امریکہ خاموش تماشائی بنا رہا۔ حالانکہ 1951میں ایوب کھوڑو کی سربراہی میں سوویت یونین جانے والے وفد کو سوویٹ حکام نے دوستی کے بدلے میں کشمیر کے بارے میں سوویت یونین کی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جسے’’ جمہوریت کا نوحہ‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ جمہوریت کے بے رحمانہ قتل اور امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر امریکہ نے آمر حکومتوں کو بے پناہ مالی امداد دی جس سے وقتی طور پر تو معیشت بہتر ہوتی رہی ۔ لیکن اس نے ’’قومی وحدت ‘‘ پر اتنی کاری ضرب لگائی کہ سیاسی عمل سے محرومی نے مشرقی پاکستانیوں کو اپنے ہی ملک میں اجنبی بنا دیا۔ اسی احساس ِ محرومی نے ایوب خان کے دس سالہ جشنِ ترقی کو ’’ شامِ غریباں ‘‘ میں تبدیل کردیا اور ایوب خان کے جانشین جنرل یحیٰی خان کے دور میں ایوب خان کی بوئی علیحدگی کی فصل کاٹنی پڑی۔ پھر جنرل ضیاء نے ’’ الیکشن میں دھاندلی‘‘ کے نام پر قبضہ کر لیا ۔ اور ملک کو امریکی مفادات کے تحت افغانستان کے نام نہاد جہاد میں جھونک دیا۔ جو درحقیقت امریکی بالادستی کی جنگ تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں امریکہ تو دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا اور پاکستان کے حصّے میں ، افغان مہاجرین ،کلاشنکوف ہیروئن کلچر اور وہ خوفناک دہشت گردی آئی جس سے ہم آج تک پیچھا نہیں چھڑا سکے۔پھر 9/11سے تقریباََ ایک سال پہلے جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور 9/11کے بعد افغانستان میں ایک مرتبہ پھر امریکی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے پاکستان کو میدانِ جنگ بنا دیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ’’ انتخابات میں دھاندلی ‘‘ اور ’’کرپشن ‘‘ کے نام پر اقتدار میں آنے والی ہر آمر حکومت نے ’’انتخابات میں دھاندلی ‘‘ اور کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے ۔ صرف یہی نہیں انہوں نے پاکستان کو مختلف نظاموں کی تجربہ گاہ بناکر رکھ دیا۔ ان حکمرانوں کے دور میں ہونے والے انتخابات اور ریفرنڈم بوگس تھے کہ انہیں ’’ دھاندلی ‘‘ کا نام بھی نہیں دیا جا سکتا۔ یہی حال کرپشن کا تھا ’’کرپشن‘‘ غیر قانونی کام کو کہتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کرپشن تو یہ تھی کہ انہوں نے اپنے حلف سے بد عہدی کرتے ہوئے ہر مرتبہ ’’ پاکستانی آئین ‘‘ کو توڑا۔ اس کے بعد خود کو کسی بھی قانون سے بالاتر قرار دیکر اس میں من مانی ترامیم کیں۔ وہ کرپٹ سیاستدان جو ان کے ساتھ مل گئے انہیں کلین چٹ دے دی ۔ یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ ہمارے ملک کے قیام اور آئین سازی و ملک کو ایٹمی طاقت بنا نے جیسے تمام کام کمزور جمہوری حکومتوں میں ہوئے ۔ جبکہ تمام جنگیں ڈکٹیٹروں کے زمانے میں ہوئیں یہ طاقتورحکمران’’ کشمیر ‘‘ کو بھی آزاد نہ کرواسکے۔ آج پاکستان ایسے گرداب میں پھنسا ہوا ہے جس سے باہر نکلنے کے لئے اسے سیاسی اور فوجی قیادت کی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اندرونی خلفشار، دہشت گردی اور بیرونی جارحیت میں الجھا ہوا پاکستان ایک مضبوط جمہوری پاکستان کا متقاضی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت میں ہزاروں خامیاں ہیں اور اسکی سب سے بڑی خامی اس کا ڈکٹیٹر شپ کے بطن سے جنم لینا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے اندر آمرانہ رجحان پایا جاتا ہے۔ انہوں نے 90کی دہائی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملکر جمہوریت کے خلاف جو سازشیں کیں وہ بھی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ لیکن ان سے اختلاف کے باوجود ضرورت جمہوری خامیوں کو دور کرنے کی ہے نہ کہ جمہوریت کا بستر گول کرنے کی کہ ہم پہلے ہی اس کی کافی سزا بھگت چکے ہیں۔ ہماری فوجی قیادت کی بالغ نظری اور بدلتے رجحانات کا یہ ثبوت ہے کہ انہوں نے 2014میں تمام تر ترغیبات کے باوجود جمہوریت کو ختم نہیں ہونے دیا۔ امید ہے کہ آئندہ بھی ایسا نہیں ہوگااور عمران خان اسلام آباد بند کرنے جیسے جو خوفناک اقدام کرنے جا رہے ہیں اور جس طرح اسے غیر جمہوری قوتوںکی رضا مندی کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں۔ وہ غلط ثابت ہوگا۔ کیونکہ ڈر ہے کہ کہیں ’’ جمہوریت کا نوحہ‘‘ ہمارا ’’قومی سانحہ‘‘ نہ بن جائے۔




.
تازہ ترین