• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ نے پاکستان کی بھارت سے ملنے والی 3323 کلومیٹر سرحد پر لیزر دیوار دسمبر2018ء تک کھڑی کرنے کا اعلان کیا ہے، لیزر ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کی شعاعیں انسانی جسم کے لئے نقصان دہ ہیں اور اُن کے پار گزرنے والے کی اطلاع فوری طور پر ایک خاص کنٹرول سینٹر کو مل جاتی ہے اور وہ کسی گھس آنے والی چیز کو روکنے کا بندوبست کرسکتا ہے، اُس کو وہ سرحدوں کے تحفظ کا برقیرے جال کہتے ہیں (Border Security Grid) یہ بھارت کی بدحواسی و پریشانی کا اظہار ہے۔ بھارتی حکومت کیونکہ حکومتی امور اور حکومتی معاہدات سے واقف نہیں ہے اس لئے وہ اس بات سے ناآشنا ہے کہ 1960-61ء میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان سرحدوں کے حوالے سے مذاکرات ہوئے تھے اور اُن کے تحت کچھ قوانین بنائے گئے تھے جن پر صدقِ دل سے عمل درآمد ہورہا ہے۔ اگرچہ اس معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، ویسے بھی پاکستان نے کبھی اِس کی سرحدوں کو نہیں چھیڑا کیونکہ وہ عالمی بائونڈری ہے، تاہم بھارت نے 1965ء میں اِسکی صریحاً خلاف ورزی کی تھی، بھارتی حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پاکستان کشمیر میں تو مداخلت کرسکتا ہے مگر عالمی سرحدوں کو نہیں چھیڑے گا پھر وہ کیوں اِن سرحدوں کے بارے میں اتنا فکرمند دکھائی دیتی ہے، شاید اُس کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہو جس پر پاکستان کو توجہ دینا ہوگی۔
جہاں تک لیزر دیوار کے کھڑی کرنے کا معاملہ ہے وہ بظاہر ناممکنات میں سے ہے، اگرچہ بھارت لیزر ٹیکنالوجی میں کافی ترقی کر چکا ہے اور اِس بات کا دعویٰ کرتارہا ہے کہ 2012ء کا گیاری سیکٹر پر لیزر حملہ بھارت نے کیا تھا، اصولی طور پر اُس کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، یہ کھلی جارحیت کا اعتراف ہے جس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ سکتی تھی کیونکہ اس میں پاکستان کے 126 فوجی شہید ہوئے تھے تاہم یہ دعویٰ بھارت کے ایک بلاگر نے کیا تھا، اس لئے پاکستان نے اِسکو سرکاری بیان نہیں سمجھا، اور اِسکو بھارت کی اشتعال انگیزی سے تعبیر کیا اور بھارت کی بڑھک سمجھی کیونکہ اُسکے بعد اُسی قسم کے برفانی طوفان سے بھارت کے 12فوجی مارے گئے تھے، اس پر پاکستان نے بھارت سے تعاون کرنے کا اعلا ن بھی کیا تھا۔ تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ بھارت لیزر ٹیکنالوجی پر 1985ء سے کام کررہا ہے، مگر یہ دیوار بنانا کافی مشکل کام ہے اور وہ اس لیزر ٹیکنالوجی سے اس قدر پریشان ہوجائیں گے کہ خود اُن کو اس گرڈ کو ختم کرنا پڑے گا، کیونکہ کسی چرندپرندکے لیزر دیوار کے قریب سے گزرنے پر الارم بجتے رہیں گے، پاکستان کے کبوتر اور پاکستان سے جانے والے چرند بھی اُن کو نفسیاتی مریض بنا دیں گے۔ اس سے صرف نظر بھی کرلیں تو بطور ٹیکنیکل شحص کے میں یہ جانتا ہوں کہ انہیں جگہ جگہ ٹاورز لگانا پڑیں گے، لیزر ٹاورز تھرپارکر کے صحرا اور گجرات کی دلدلی زمین پر کیسے لگائے جائیں گے، مجھے ایک ملک میں ایسے حالات سے گزرنا پڑا ہے جہاں ایسے ٹاورز لگائے جانے تھے، بہت ہی مشکل محنت طلب اور بہت مہنگا سودا تھا۔ اکثر یہ ٹاورز ریت کے طوفان میں گر جاتے تھے یا کام کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ کسی خاص وقت میں اس تک رسائی یا اُن کو بروئے کار لانے کا کام کئی ہفتوں تک معطل رہتا تھا۔ بفرض محال وہ اس پر قابو پا لیتے ہیں تب بھی وقت درکار ہوگا اور 2018ء تک یہ ممکن نہیں ہوسکے گا، سائنسداں اور انجینئرز کو کوئی کام دیا جائے تو وہ کوشش پوری کرتے ہیں مگر اس میں کوئی نہ کوئی ایسا نقص باقی رہ جاتا ہے جس سے مخالف فائدہ اٹھا سکتا ہے اور جس وقت صحرائی طوفان آیا ہو اس وقت مخالف بخوبی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ گجرات کے دلدلی علاقے میں ٹاورز لگانا انتہائی مہنگا کام ہے، ٹاورز کی بنیاد کو کیسے قابو میں رکھا جاسکے گا، اگر وہ طریقہ استعمال کیا جائے جو ڈیم بنانے میں استعمال ہوتا ہے تو وہ ایسا کرسکتے ہیں مگر اس پر جو لاگت آئے گی اُسکا تخمینہ لگا یاتو اِسکی افادیت پر سمجھوتہ ہوجائے گا۔ پھر یہ سوال بھی ہوگا کہ ٹاورز کتنے فاصلے پر لگیں گے اور کتنے اونچے ہوں گے، توپ کا ایک گولہ ایک ٹاور کو تباہ کردے تو کئی سو میل کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ اس طرح بظاہر یہ نظام قابل عمل نظر نہیں آتا مگر بھارت کے خوف اور پریشانی یا مہم جوئی کی سطح بہت بلند ہے، وہ اتنا خوفزدہ ہے یا کسی بڑی مہم جوئی کا خیال دل میں بسائے بیٹھا ہے کہ وہ اپنے بڑے ملک، پاکستان سے کئی گنا بڑی فوج کی موجودگی کے باوجود اُسے اپنی مسلح افواج اور نہ ہی ہتھیاروں پر بھروسہ ہے اسلئے اپنے دفاع کیلئے بھارت سے وفادار 21برہمن کو اپنی حکومت اور اپنی فوج کی حفاظت کیلئے راشٹریہ رکشایاگنا کے نام سے ایک منصوبہ بنایا ہوا ہے جس سے بھارت کے خوف کا اندازہ ہوتارہا ہے بھارت نے کشمیر کی سرحد پر 5500کلومیٹر پر12فٹ اونچی دہری خاردار تاریں لگائی ہوئی ہیں، جن میں بجلی دوڑ رہی ہوتی ہے اور جو حساس (Motion Sensors thermal imaging) سے جڑی ہوئی ہیں، کسی متحرک چیز کے گزرنے کے ساتھ ہی الارم بج جاتا ہے اور خودبخود علاقہ روشن ہوجاتا ہے اور بھارتی فوج کو فوری طور پر اطلاع مل جاتی ہے۔ یہ خاردار تاریں سرحد سے 150گز کے فاصلے پر لگی ہوئی ہیں اور سرحد 150گز تک بارودی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں، اس لئے وہاں سے کسی ذی روح کا گزر ممکن نہیں۔ لیکن جب اُوڑی کا واقعہ ہوتا ہے تو بھارت فوری طور پر پاکستان پر الزام تراشی شروع کردیتا ہے کہ حملہ آور پاکستان سے آئے، اِسکے یہ معنی ہیں کہ بھارت خود اپنے بنائے گئے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہا ہے، اسی طرح ابھی لیزر دیوار نہیں بنی کہ بھارت نے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بھارت کشمیر میں غاصب ہے اور وہاں کے عوام اُسکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس لئے اُوڑی کیمپ کا واقعہ ہوتا ہے تو وہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کے منصوبہ کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرتا ہے اور غلط ثابت ہونے پر چپ سادھ لیتا ہے، ایک کلومیٹر اندر آ کر حملہ کرنے سے دو پوسٹیں تباہ کرنے اور دو فوجیوں کو شہید کرنے کو سرجیکل اسٹرائیک کہتا ہے تو الگ بات ہے،تاہم حال ہی میں بھارت کے ایک کالم نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کے 33سٹیلائٹ خلا میں تیر رہے ہیںاور پاکستان کے ہر علاقے پر نظر رکھے ہوئے ہے اگر ایسا ہے تو اتنی بے چینی کیوں؟ اور کیوں مسلسل اشتعال انگیزی کررہا ہے، ہرپال اور چیرار سیکٹر میں بھارت کی جارحیت سے 8 پاکستانی شہری زخمی کردئے اور ایک شہید۔ جوابا پاک فوج نے بھمپر سیکٹر میں بھارتی فوج کی چوکیوں پر حملہ کرکے چار چوکیاں تباہ اور پانچ بھار تی فوجی مار دیئے۔ بھارتی تعریف میں یہ بھی سرجیکل اسٹرائیک ہوئی۔ اگر وہ ہم پر بھاری ہے تو تحمل کا مظاہرہ کرے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ بھارت انتہائی خوفزدہ ہے اور اپنے اس خوف کی علامتیں ظاہر کررہا ہے۔ اُسکا اُوڑی سیکٹر پر حملہ کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالنا، سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ، برہمنوں کی مدد کا حصول، لیزر ٹیکنالوجی کا استعمال بھارت کے خوف کی علامتیں ہیں یا پھر جارحیت اور مہم جوئی کا ارادہ ہے اور متوقع جوابی کارروائی کیلئے دفاعی پیش بندی کی جارہی ہے۔





.
تازہ ترین