• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی ادارہ محنت کا یہ انکشاف کہ خلیجی ممالک میں حصول روزگار کے لیے جانے والے پاکستانیوں کو ویزہ فیس اور دیگر اخراجات کی مد میں دوسرے ملکوں کے شہریوں کے مقابلے میں تیرہ گنا زیادہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے، ہمارے متعلقہ اداروں کی غیرتسلی بخش کارکردگی اور نااہلی کا ایک کھلا مظاہرہ ہے۔ ایک خلیجی اخبار میں شائع ہونے والی آئی ایل او کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خلیجی ملکوں کے قانون کے مطابق روزگار کے لیے آنے والے غیرملکیوں کی ویزہ فیس سمیت تمام اخراجات بیس ہزار سے اکتیس ہزار روپے تک ہوتے ہیں لیکن ایک پاکستانی محنت کش اس مقصد کے لیے اوسطاً دو لاکھ چونسٹھ ہزار روپے ادا کرتا ہے ۔یہ بھاری رقم فراہم کرنے کے لیے بیشتر پاکستانی محنت کش قرض لیتے یا گھر کا سازوسامان، زیورات اور مویشی فروخت کرتے ہیں۔اخبار لکھتا ہے کہ امارات کے قانون میں یہ خیال رکھا گیا ہے کہ دوسرے ملکوں سے روزگار کی تلاش میں آنے والے محنت کشوں پر کم سے کم مالی بوجھ پڑے چنانچہ متعلقہ قوانین کے تحت یہ اخراجات 730 سے1100 سو درہم کے اندر ہوتے ہیں لیکن پاکستانیوں کے معاملے میں صورت حال برعکس ہے اور انہیں دوسرے ملکوں کے کارکنوں کی نسبت تیرہ گنا زائد رقم یعنی اوسطاً9314درہم ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس لوٹ کھسوٹ میں روزگار دلانے والے ایجنٹ اور پاکستان کے متعلقہ حکام کی ملی بھگت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے لیے عالمی ادارہ محنت کی لیبر مائیگریشن گورننس پروجیکٹ کی چیف ٹیکنیکل مشیر نے حکومت پاکستان کو امیگریشن عمل بہتر بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ اگر پاکستان میں امیگریشن کے عمل میں بددیانتی کا عمل دخل ختم ہوجائے اور ورکرز کو قوانین اور حقیقی اخراجات کے بارے میں مکمل معلومات ہوں تو انہیں ناقابل برداشت بوجھ سے بچایا جاسکتا ہے۔ حکومت پاکستان کو اس مشورے پر عمل کیلئے بلاتاخیر اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ پاکستانی محنت کشوں کے لیے بیرون ملک روزگار کا حصول آسان ہو جوقومی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے۔

.
تازہ ترین