• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ناظرین آئیےہم آپ کولاہورلیے چلتےہیںجہاں فلاں صاحب میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں ، آئیے اب ہم آپ کو اسلام آبادلیےچلتے ہیں جہاں وفاقی وزیرپریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں، آئیے ہم آپ کو کوئٹہ لیے چلتے ہیں جہاں فلاں پارٹی کے چیئرمین میڈیاسے گفتگو کررہے ہیں، آئیے ہم آپ کو کراچی لیےچلتے ہیں جہاں فلاںصاحب پارٹی کارکنوں سے خطاب کررہے ہیں آئیے ہم آپ کو بنی گا لا کی تازہ ترین صورتحال دکھانےکےلیے بنی گالہ لے جاتے ہیں، میں سارا دن سے یہی سن رہا تھا ، ایسا معلوم ہورہا تھا کہ لاہور کے بادامی باغ کا بس اڈا ہو جہاں پر ہر کارا اپنی اپنی بس کی سواریاں پوری کرنے کےلیے آوازیں لگا رہا ہے ، کوئی فیصل آباد، تو کوئی گوجرانوالہ ، کوئی پنڈی اور کوئی سیالکوٹ، کوئی ملتان تو کوئی پشاور پشاور کی آوازیںلگا رہاہے ، اور اس پر مزید یہ کہ مختلف فوک گلوکاروں کی آوازوں میں چمٹے، ہارمونیم، ڈھولک اور طبلے کی مدد سے چلنے والے گانے دماغ کی لسی بنارہے ہوں، بالکل ایسی ہی صورتحال ٹی وی چینلز کی بھی پیش کر رہےتھے ، کئی مرتبہ ٹی وی کو آف کرکے خود کو ادھر ادھر مشغول کرنے کی ناکام کوشش بھی کرچکا تھا لیکن پھر نہ چاہتےہوئے بھی ہاتھ ٹی وی ریمورٹ پر چلاجاتا تھا، اسی کشمکش میں تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی نے چونکادیا ،ا سکرین پر بابا اسکرپٹ کا نام چمک رہا تھا، سلام دعا کے بعد بابا نے مجھے اپنے گھر بلا لیاکہنےلگے دل بہت غمگین ہے اگر تم آ جائو تو شاید گپ شپ میں کچھ طبیعت میں بہتری آجائے، میں جو ساری صورتحال سے بوریت کا شکار اور بوجھل طبیعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا فوراً حامی بھر لی کہ چلو بابا اسکرپٹ کی کافی کے ساتھ ساتھ من گھڑت ہی سہی کچھ نہ کچھ خبریں اور تبصرے تو سننے کو ملیںگے، پندرہ بیس منٹ بعد پہنچا تو جاتے ہی بابا اسکرپٹ کو کہاکہ آپ ’’ وزیراعظم نواز شریف گھیرائو پر غمگین ہیں یا عمران خان کے دھرنے کی ناکامی کے ڈر سے خوفزدہ ہیں‘‘ بابا اسکرپٹ نے فوری جواب دینے کی بجائے کچھ دیر خاموشی اختیار کیے رکھی اور پھر کہنے لگے کہ اگر تم نے اس طرح مجھ پر طنز کرنا تھا تو بہتر تھا کہ نہ ہی آتے ، میں بابا کی دکھی لہجے کو سمجھ گیا اور سوری کہتے ہوئے کہاکہ میں تو آپ کوخوش کرنے کےلیے مذاق کررہا ہوں۔
بابا اسکرپٹ نے میری بات کا جواب دیتےہوئے کہاکہ آج بلاول بھٹو کی کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران گرنے والے آنسوئوںنےمجھے بہت غمگین کردیاہے ، بلاول بھٹو اب لیڈر ہے اور لیڈروں کو رونا تو نہیں چاہیے لیکن ماں کا غم نہ جانے اسے کب تک رلاتا رہے گا، باباا سکرپٹ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر کہنے لگے ،میں نے بلال بھٹو کو اپنی دونوں بہنوں کے ساتھ بے نظیر کی گود میں کھیلتےدیکھاہے بی بی کو خود اپنے بچوں کوپڑھاتےدیکھا ہے ، بی بی آصفہ بھٹو کے بارے میںیہ کہا کرتی تھیں کہ یہ اپنے باپ آصف کی بیٹی ہے اسوقت زرداری جیل میں بند تھے ، بی بی کہہ رہی تھیں کہ جب میںجیل میں آصفہ کو آصف سے ملا نے لے جاتی ہو ں تو اپنے والد کی گود میں بیٹھ کر میری خوب شکایتیں لگاتی ا ور اپنے والد سے ملاقات کے بعد مجھے کئی روز تک بہت تنگ کیا کرتی ہے، آج جب میں بلاول بھٹو کو اپنی ماں کے ذکرپر آنسو بہاتے دیکھا تو میرا دل بھر آیا میں اداس ہوگیا، میرا دل غمگین ہوگیا،میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا رعب دبدبہ بھی دیکھا ہے اور اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں لے کر ان کی آنکھوں سے ٹپکنے والی ممتا بھی دیکھی ہے ، بلاول بھٹو نے سیاست کےپرخار راستوں پر چلنا شروع کردیا ہے ، لیکن اسے بطور لیڈر اپنے آنسوئوں پر قابوپانا ہوگا، اسے دلیری سے اپنی پارٹی کی قیادت کرنا ہوگی، اسے اردو زبان پر عبور حاصل کرنا ہوگا،اسے میرٹ پرپارٹی عہدے تقسیم کرنے ہوںگے، ہر روز نئے نئے موقف پیش کرکے خود کو مذاق نہیں بناناہے بلکہ ایک موقف بیان کرکے اس پر ڈٹ جاناہے ، ملک کے غداروں کو سہارا دینا اور سیاسی مفادات کےلیے ان کی خوشامد کرکے ان سے سہارا لینے کو ترک کرنا ہوگا، اور سب سے بڑا اور اہم فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ اسے اپنے والد کی سیاسی گھٹڑی اٹھانی ہے یا اپنی ماں کی بارعب اور دو ٹوک دلیرانہ سیاست کو اپنا ناہے ، ملک کو اور سیاست کے میدان کو بلاول کی ضرورت ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ بلا و ل ماں کی لیگیسی یا والد کی سیاسی گھٹڑی میں سے کسی ایک کو اپنا نے کا فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ ایک سیا سی جما عت جو قو می سطح کی تھی وہ رینگ رینگ کر چلتی رہے گی اور آنے والے چیلنجز کا مقا بلہ کرنے کی بجا ئے کمزور ہو تی رہے گی۔




.
تازہ ترین