• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حسب معمول اک بار پھر میاں صاحب نے پہلے ڈان لیکس اور پھر پانامہ لیکس کا معاملہ حل کرنے میں بہت دیر کردی ۔ اگر انہوں نے عدالتی احتساب کو ہی تسلیم کرنا تھا تو سات ماہ پہلے ہی مان لیتے
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
بعد از خرابی بسیار دوروز پہلے انہوں نے کہا کہ ڈیڈلاک کی نہیں ڈائیلاگ کی ضرورت ہے مگر اس وقت تک پلوں کے نیچے سے ہی نہیں پلوں کے اوپر سے بھی شوریدہ سراور منہ زور ریلے گزرنے لگے ۔ پی ٹی آئی کا مطالبہ تو دولفظی تھا ۔ احتساب یا استعفیٰ ۔ بالآخر عدالت عظمیٰ نے عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا جس کےاختیارات سپریم کورٹ جتنے ہی ہوں گے یہ باعث اطمینان اور مقام شکر ہے کہ میاں صاحب اور عمران خان دونوں نے عدالت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اس کے فیصلے کوتسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت پرجنرل پرویز مشرف کے شب خون کے بعد جب وہ کبھی اٹک کے قلعے میں قیدوبند کی صعوبتیںبرداشت کررہے تھے ۔ اور کبھی کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے تھے توایک روز خبر آئی کہ میاں صاحب کو جہاز میں ہتھکڑی لگاکر کراچی لے جایا گیا اور ان کے ساتھ اہانت آمیز سلوک کیا گیا ملک کے منتخب وزیراعظم کے ساتھ اس بدسلوکی کی خبر سن کر میرا خون کھولنے لگا اور میں نے قلم کے پورے زور سے اس آمرانہ رویے کے خلاف کالم لکھا جس کا بعد میں میاں صاحب نے شکریہ ادا کیا تو میں نے عرض کیا اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں یہ تو میری شدت احساس کا تقاضا تھا ۔ ابھی دوتین روز پہلے میاں صاحب کے احکامات پر اسلام آباد میں منتخب رکن قومی اسمبلی عارف علوی کو نہایت بے دردی اور بدتمیزی سے گدی سےپکڑ کر اور دھکے دے کر پولیس مینوں نے گاڑی کے اندر پھینکا تو یہ منظر بھی میرے لئے اتنا ہی دل شکن تھا جتنا میاں صاحب سے جہاز کے اندر بدسلوکی والا منظر۔ کتنا افسوسناک ہے کہ میاں صاحب نے پانامہ لیکس کے معاملے کو سیاسی حکمت عملی ، فہم وفراست اور تدبر ودانش سے حل کرنے کے بجائے اسے مشرف ماڈل سے حل کرنے کی کوشش کی کنٹینروں سے شہروں کو بند کرنا، چیف جسٹس آف پاکستان کو کراچی ائیر پورٹ کے اندر محصور کرنا اور باہر انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا توجنرل مشرف کا ماڈل ہے۔ میاں صاحبان نے پہلے اسی ماڈل کوماڈل ٹائون لاہور میں اپنایا اور اب سارے پاکستان کو بند کرکے اس کا مظاہرہ کیا سیاست دانوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ یہ کیسی سائیکی ہے کہ جب تک وہ کوچہ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو سیاسی آزادیوں، بنیادی حقوق اور میثاق جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور جب مسند اقتدار پرمتمکن ہوتے ہیں تو آمر بن جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی پانچ برس تک آمر مطلق بنے رہے اور تحریک انصاف کی خواتین کے ساتھ پولیس کی بدتمیزی پرمیاں صاحب کا دل اندر سے تو تڑپا ہوگا ۔ اس وقت میاں صاحب کے گردوپیش جو حوالی موالی ہیں وہ اپنی اپنی افادیت ثابت کررہے ہیں۔ اور حکیمانہ ودانشمندانہ مشورہ دینے کے بجائے وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے میاں صاحب کی خوشنودی حاصل کی جاسکے ۔ میرے انتہائی قابل احترام اور صاحب علم ودانش دوست احسن اقبال صاحب بھی فرماتے ہیں کہ عمران خان دس لاکھ تو کیا دس ہزار کا مجمع بھی اکھٹا نہیں کرسکتا۔ میرے بھائی ! آپ نے سارے شہر کنٹینروں سے بند کردیئے، پی ٹی آئی کے کارکنان کو جگہ جگہ گرفتار کرلیا ان کے گھروں کے باہر پولیس کا شدید پہرہ بٹھا دیا۔ ایک صوبے کو باقی سارے ملک سے کاٹ دیا ۔ ٹرانسپورٹ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ ان پرویزی حیلوں کے بعد دس ہزار بھی اکھٹے ہوجاتے تو بڑی بات تھی ۔ آپ کوتو شاید یاد نہ ہو مگر میاں صاحب کو تو ذرا ذرا یاد ہوگا اور وہ یادماضی ان کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں کہ جب جنرل پرویز مشرف نے 2007میں میاں صاحب کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے ڈی پورٹ کیا تھا تو اس وقت ان کے استقبال کے لئے دس لاکھ یادس ہزار تو دور کی بات دس مسلم لیگیوں کو بھی اسلام آباد ائیرپورٹ کے قریب نہ پھٹکنے دیاگیا ۔
کیا وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اندازہ ہے کہ کنٹینروں کی پکڑ دھکڑ سے پاکستان کی مقروض معیشت کو کتنے اربوں کا خسارہ برداشت کرناپڑا ہے ۔ پاکستان لیدر ایسوسی ایشن ، لاہور چیمبر آف کامرس اور ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے دہائی دی ہے کہ کنٹینروں کی پکڑدھکڑ سے تجارت بہت متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان کی درآمد و برآمد کی تجارت پہلے ہی بحران کا شکار ہے اوپر سے سامان کی ترسیل میں تاخیر پاکستانی برآمد کنندگان کے لئے تباہی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ بزنس فرینڈلی وزیراعظم کواگر مختلف محاذوں پر سیاسی کشاکش سے فرصت ملے تو وہ جائزہ لیں کہ معیشت کس تباہی سے دوچار ہے۔ محض اشتہاری مہموںاور خیالی گوشواروں سے اس تباہ حالی کو نہیں چھپایا جاسکتا۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل اوراس سے منسلک کاروبار ٹیکس درٹیکس کے جبری نظام سے تباہ ہوچکا ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ پراپرٹی کے بزنس کا کچھ کاروبار ہورہا تھا اور چھوٹے بڑے ڈیلروں کی دال روٹی چل رہی تھی مگر اسحق ڈار کے نئے ٹیکسوں سے یہ کاروبار بھی ٹھپ ہوچکا ہے۔ درآمد برآمد کا حال پہلے بیان کرچکا ہوں۔ وزیر اعظم نے اچھا کیا کہ جواپنے وزرا کو سیاسی مخالفین سے الجھنے کی ممانعت کردی ۔ ورنہ یہ وزرا اپنی اپنی حاضری لگوانے کے لئے بڑے بڑے شاہکار بیانات داغ رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ ڈیڑھ سو افراد سے اسلام آباد بند نہیں ہوتا ۔ اگر یہ بات تھی توپھر آپ کو ڈرکاہے کاتھا جس کی بنا پرآپ نے سارا ملک بندکروایا اور مریضوں اور جنازوں تک کوآنے جانے نہ دیا ۔ ہمارے بعض تجزیہ کار اور اینکر حضرات بھی گھر پھونک تماشا دیکھ کرخوش ہوتے ہیں بجھتی ہوئی آگ سے لگتا ہے انہیں بہت مایوسی ہوئی ہے وہ دم توڑتی ہوئی چنگاریوں پر مسلسل تیل ڈال رہے ہیں اور عمران خان پرطنز کے تیر برسا رہے ہیں۔اور اسے طعنے دے رہے ہیں کہ تم اسلا م آباد بند کرنے کے موقف سے پیچھے ہٹ گئے ہو۔ کل تک یہی تجزیہ کار عمران خان کو جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کا درس دے رہے تھے۔ انتشار اور انارکی سے اپنی خواہشات کا مینا بازار وابستہ کرنے والے سیاست دانوں کوبھی مایوسی ہوئی ہے۔ خورشید شاہ جیسے سینئر سیاسست دان کل تک عمران خان کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ عدالت اور پارلیمنٹ میں پاناما لیکس کا حل تلاش کرے اور آج وہی شاہ صاحب عمران خان کو یوخان کہہ رہے ہیں۔ حضور والا ! برسوں کی ریاضتوں اور کوششوںسے پاکستان میں تاریخی لمحات آئے ہیں ۔ اب یہ بیان بازی اور تیراندازی بند کیجئے اور اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ ایک بڑا بحران ٹل گیا ہے۔


.
تازہ ترین