• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علی احمد خان برصغیر میں کل کے برطانوی نشریاتی ادارے کے ریڈیو پر اردو زبان کی سروس کے سامعین میں ایک بڑی آواز تھے۔ ہمارے محترم دوست۔ اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے حلقے میں ’’خان صاحب‘‘ کے نام سےمعروف۔ بصد ان کے احترام و محبت کہنے دیجئے کہ وہ ان دنوں اس ادارے کی نشر ہونیوالی خبریں اور تبصرے سننے والوں کے لئے ایسی آواز تھی جیسی انیس سو تیس چالیس کی دہائیوں میں برصغیر میں موسیقی اور گرامو کے ریکارڈ سننے والوں کے لئے گوہر جان کلکتے والی کی آواز۔ علی احمد خان کی آواز ان دنوں شہر شہر جنگل منگل سنی جاتی تھی جب سندھ کی جیلوں میں سیاسی قیدی ’’سیربین‘‘ کو ازراہ تفنن ’’خیر دین‘‘ کہا کرتے۔کہ بندش و آمریت کے زمانے میں فقط ایسے مواصلاتی ذریعے سے صحیح خبریں آتی ہیں۔
خان صاحب کچھ سال ہوئے کہ عالمی نشریاتی ادارے سے ریٹائر ہونے کے بعد ایبٹ آباد جاکر بسے ہیں۔ جہاں نظربدورانہوں نے ایک خوبصورت گھر بنایا ہے اور زندگی بہت ہی خوبصورتی سے گزر رہی ہے۔ بیوی،بچے، بچوں کی اولاد، یار دوست، ساتھی جو بھی آئے دسترخوان دل اور دل کا ساغر و شیشہ کشادہ رکھتے ہیں۔ ایبٹ آباد محض اسامہ بن لادن کیوجہ سے بدنام ہے وگرنہ وہ ائیر مارشل اصغر خان، عمر اصغر خان اور ہمارے علی امحمد خان کی وجہ سے نیک نامی رکھتا ہے۔
خان صاحب نے اپنی زندگی کی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’’جیون ایک کہانی‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے جسے ہمارے ایک اور دوست اجمل کمال کے اشاعتی ادارے کراچی نے شائع کیا ہے۔ کتاب کیا ہے! بس یہ ان کتابوں میں سے ہے جو آدمی کو ایک ہی وقت رلانے اور ہنسانے کی قدرت رکھتی ہے۔ اور ایسی کم کتابیں لکھی گئی ہوں گی ۔ ایک زندہ کتاب۔ بولتی، سرگوشیاں کرتی، ہنساتی رلاتی کتاب۔ بالکل ایسے جیسے گویا خان صاحب جو بھی ان سے ملے ہیں اور ان کو جانتے ہیں خود آپ سے اپنی مخصوص نوع اور مزاح میں بات کر رہے ہوں۔ ایک سیدھے سادے انسان کی کہانی جسے زندگی، حالات اور تاریخ کے تھپیڑے کہاں سے کہاں لے کر گئے۔ یہ علی احمد خان ہی کی کہانی نہیں بہت پاکستان، کچھ بھارت اور بہت سابقہ مشرقی پاکستان اور بہت بنگلہ دیش کی کہانی ہے۔ یہ جو آج کل پاکستان میں وقوع پذیر ہورہا ہے۔ جہاں میں، آپ اور علی احمد خان جیسے لاکھوں کروڑوں انسان ایک سوراخ شدہ اسٹیمر پر تھپیڑے کھا رہے ہیں۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا۔ ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ اسی لڑائی مار کٹائی،بقول میرے دوست سندھی شاعر ایاز گل ’’تجسس، دکھ، خوف‘‘، یا خونریزی سے بھرپور فلم ہے جو ہمارے ملک سے کبھی اتری نہیں۔ جس کے شریف ہوتے مار کھاتے ہوئے انسان آپ ہیں۔گیٹ کیپر سے ہنٹر کھاتی ہوئی ہم مخلوق جنہیں حبیب جالب نے کہا تھا ’’یہ جو دس کروڑ ہیں۔‘‘ بس ایک ہربار شرطیہ نئی کاپی کر کے لوگوں کے ساتھ ہاتھ کرکر جس کی نمائش دن رات ہفتے مہینے سال جاری ہے۔ وہ بھی گزشتہ ستر سال سے۔ جیسے نیویارک کے براڈوے پر اتنے ہی عرصے سے وکٹر ہیوگو کے ’’لی میزراب‘‘ پر مرکوز لگا ہوا تھیٹر۔ تھیٹر اور اس شاہکارکے کردار جیسے پاکستان اور بنگلہ دیش ملکوں کےلوگ ہوں۔ ہم کہ لی میزراب۔ ذلتوں کے مارے لوگ۔ مراعات یافتہ لوگ الگ تھلگ۔ بٹتے کٹے مرتے محروم لوگ الگ اچھوت۔ زندہ باد اور مردہ باد کہتے لوگ۔ بہاری بنگالی، ہندوستانی پاکستانی لوگ۔ اردو کے اڈمبر میں حکمرانی کرتے ہوئے لوگ اس کی حکمرانی تلے آتے لوگ۔ علی احمد خان کی جیون ایک کہانی ہم ایسے لوگوں اور دیسوں کی کہانی ہے۔ وہی سیاستدان وہی ان کی نااہلیاں، ناعاقبت اندیشیاں، وہی اسمبلیاں کہ مـچھلی مارکیٹ۔ اور ایسے میں علی احمد خان جیسے ایک عام انسان اور ان کے خاندان کی کہانی۔
وہ کہانی جو پاکستان ہندوستان کے بٹوارے سے ذرا پہلے اور بنگلہ دیش کے جنم کے دوچند برس بعد تک آکر مذکورہ کتاب میں اچانک ختم ہوتی جاتی ہے۔ خان صاحب کے والد اور دو بھائی ختم کردیئے جاتے ہیں۔ لیکن اس کتاب سے قبل نہ کبھی خان صاحب نے اس المناک قضیے کا ذکر کیا اور نہ ہی کبھی شاید دوستوں نےان سے تفصیلی پوچھا۔ لیکن پھر بھی ان تمام سانحوں سے گزرنے کے باوجود وہ تاریخ کی صحیح سمت رہے۔ کبھی مخبوط الحواس نہ بنے۔ اس وقت علی احمد خان اپنے بچے کھچے کنبے کے ساتھ ملنے کو باقیماندہ پاکستان کی طرف بنگلہ دیش، بھارت اور نیپال کے سفر کے خطرات مول کر نکلے تھے جب ہم لوگ ’’ بہاری نہ کھپن‘‘ (بہاری نہیں چاہئیں) کے مطالبے پر بچے تھے لیکن بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے۔ علی احمد خان کی  ’’جیون ایک کہانی‘‘ پڑھ کر پہلی بار مجھے سمجھ آیا کہ نہ سارے کے سارے بنگالی گنگا نہائے ہوئے تھے نہ سارے کے سارے بہاری جمنا۔ اپنے اپنے سب کے تعصبات تھے۔ نفرتیں تھیں ۔جن کے پاس پھر بنگالی ہوں کہ غیر بنگالی بشمول بہاری اپنی اپنی نیکی اور انسانیت بھی تھی، جس جس کو موقع ملا اس نے لوٹ مار مچائی قتل و غارت میں حصہ لیا ایسے بھی تھے جنہوں نے بشمول علی احمد خان ان کے بچے کچھے کنبے کے بہت سوں کی جان بچائی۔ اور یہی وہ موڑ ہوتے ہیں جہاں مرتی مارتی انسانیت کے باوجود اس پر اعتبار اور بڑھ جاتا ہے۔
علی احمد خان خود اپنی اس کتاب میں ان سانحات کو کس بیانیے میں بیان کرتے ہیں:’’میرے خاندان کے ان افراد کا مارا جانا یقیناً میرے لئے ایک بڑا سانحہ تھا۔ لیکن میں ذہنی طور پر اس صدمے کے لئے تیار ہوچکا تھا ۔میرے لیے جو بات سب سے زیادہ پریشانی کا سبب تھی وہ یہ کہ میں اپنی ماں کا سامنا کیسے کروں گا ۔
انہیں یہ کیسے سمجھائوں گا کہ ہر تاریخی تبدیلی بہت ساری مائوں کو ان کے بچوں سے محروم کردیتی ہے،بہت سارے بچوں کو یتیم کردیتی ہے اور بہت ساری عورتوں کو بیوہ کردیتی ہے۔ اور یقین مانیے، مجھے آج تک اس بات کا ملال ہے- کاش میں اپنی ماں کو یہ بات سمجھا سکتا تو شاید باقی زندگی ان کی اس کرب میں نہ گزرتی جس میں گزری۔‘‘
اور ذرا اس تاریخی تبدیلی کا بھی سن لیجئے جو برصغیر کی تقسیم کہلائی جس کے نتیجے میں علی احمد خان اور ان کے خاندان والے ہندوستان سے نئے ملک پاکستان پدھارے تھے:
’’آوادی میں ہندو مسلم فسادات کا اتنا شور شرابہ نہیں تھا۔ ویسے ہمارے یہاں انگریزی کا ایک اخبار اور السٹریٹیڈ ویکی آف انڈیا باقاعدگی سے آتا تھا۔ یہیں میرے چچا نے ایک دن شام کی چائے پر میرے دادا کو بتایا کہ آپشن مانگا گيا ہے کہ ہندوستان میں رہو گے یا پاکستان جائو گے۔ میرے داد نے ذرا سے تامل کے بعد مشورہ دیا کہ پاکستان میں مواقع زیادہ ہوں گے۔ اس لئے بہتر ہوگا پاکستان کا ہی آپشن لو۔
بہتر مواقع کی تلاش میں پہلے بھی تین چار سو برس پہلے کہیں افغانستان وغیرہ سے میرے آباو اجداد ہندوستان آئے ہوں گے، اور اب جب ہم مکمل طور پر مشرقی یوپی کے بن گئے تو پھر بہتر مواقع کی تلاش شروع ہوگئی‘‘۔
علی احمد خان کتاب میں ایک جگہ سابقہ مشرقی پاکستان میں ایوب خانی آمریت میں اپنی نیشنل عوامی پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اس کانفرنس میں خیر بخش مری بھی آئے تھے اور انہوں نے پارٹی کے کارکنوں کے ایک جلسے سے خطاب بھی کیا جس میں دوسرے لیڈروں کے علاوہ مولانا بھاشانی بھی تھے۔ تقریر تو مجھے اب یاد نہیں لیکن انہوں نے تقریر میں یہ سوال بھی کیا تھا کہ بلوچستان اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہا ہے، اس میں آپ ہمارا ساتھ دیں گے ؟ خیر بخش تو مر گئے بلوچستان آج تک پوچھ رہا ہے اور ہر پاکستانی سے پوچھ رہا ہے کہ ہمارے حقوق کی اس جدوجہد یا لڑائی میں آپ ہمارا ساتھ دو گے یا نہیں؟‘‘


.
تازہ ترین