• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ماہ آئی ایم ایف نے اپنے تین سالہ قرضے کے پروگرام کی ’’کامیابی‘‘ کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کو معاشی استحکام نصیب ہوا ہے،افراط زر میں کمی ہوئی ہے، ٹیکسوں کی وصولی میں بہتری آئی ہے اور بجٹ خسارے میں بھی کمی ہوئی ہے۔ یہ دعوے غیر حقیقت پسندانہ ہیں، آئی ایم ایف نے بین السطور معیشت کو درپیش چیلنجز اور خطرات کا بھی ذکر کیا ہے جن کی طرف پاکستان میں زیادہ توجہ نہیں دی جارہی۔ آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسیٹن لاگارڈ نے بھی ریکارڈ درست رکھنے کی خاطر گزشتہ ماہ اسلام آباد میں کہا کہ پاکستان کے قرضوں کا حجم بہت زیادہ ہے اور ان قرضوں پر ادا کی جانے والی صرف سود کی رقم پاکستان کے مجموعی ترقیاتی اخراجات سے زیادہ ہے۔ پاکستان ٹیکسوں کی مد میں استعداد سے نصف سے کچھ ہی زیادہ وصول کرتا ہے (یعنی ٹیکسوں کی وصولی کو دگنا کرنا ممکن ہے) اور حکومتی شعبے کے اداروں کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں جی ڈی پی اور برآمدات کا تناسب 40 فیصد ہے جبکہ پاکستان کا تناسب صرف 10 فیصد ہے۔ اسی طرح پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کا تناسب صرف 10 فیصد ہے جبکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا تناسب 18 فیصد ہے۔ انہوں نے پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں کم رقوم مختص کرنے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانیوں کو یاد دلایا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 168 ممالک میں سے 116 ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔ پاکستانی معیشت کی متعدد دوسری سنگین خرابیوں کا بہرحال انہوں نے ذکر نہیںکیا۔
یہ ایک افسوناک حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں معاشی پالیسیاں طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئےبنائی جاتی رہی ہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی استعماری طاقتوں کے ایجنڈے کے مطابق ان استحصالی پالیسیوں کو نظرانداز کرکے بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے، قومی اثاثوں کو نج کاری کے نام پر غیرملکیوں کو فروخت کرنے اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئےتعلیم و ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے جیسے اقدامات پر اپنی منظوری کی مہر ثبت کردی۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کی اجازت سے بجٹ خسارے کے مالکاری کرنے کے لئے حکومت نے اسٹیٹ بنک کے بجائے تیزی سے بینکوں سے قرضے لیتے چلے جانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ جولائی 2013ء سے جون 2016ء تک بینکوں کی جانب سے حکومتی تمسکات میں کی گئی سرمایہ کاری کے حجم میں 3518 ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ بینکوں کے دیئے ہوئے قرضوں کے حجم میں صرف 1070 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس تباہ کن پالیسی کے جاری رہنے کے نتیجے میں معیشت کی شرح نمو سست ہوئی۔ سرمایہ کاری کے حجم میں کمی ہوئی، برآمدات گریں اور روزگار کے کم مواقع میسر آئے۔
یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ 2016ء میں وفاق اور چاروں صوبوں نے قومی پالیسی 2009ء سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے تعلیم کی مد میں 2016ء میں تقریباً 1350 ارب روپے کم مختص کئے ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف کی حمایت سے قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو جو رقوم ملیں ان کا ایک حصہ خرچ نہ کرنے پر چاروں صوبوں نے اتفاق کرلیا تاکہ ٹیکسوں کی چوری اور کرپشن روکے بغیر بجٹ خسارے پر کنٹرول رکھا جاسکے۔ وطن عزیز میں سیاسی مفادات کے لئے پانامہ لیکس کے مسئلے پر زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی۔ حالانکہ اس ضمن میں بیرونی ملکوں سے رقوم کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ہم نے اپنے 21 اپریل 2016ء کے کالم ’’پاناما لیکس… کیا کچھ نکلے گا؟‘‘ میں تفصیلی گزارشات اور سفارشات پیش کی تھیں۔ اگر ان سفارشات پر عمل کیا جائے تو لوٹی ہوئی دولت کا ایک حصہ واپس مل سکتا ہے۔ کرپشن پر قابو پایا جاسکتا ہے اور عوام کی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔ وہ سیاسی پارٹیاں بھی جو پاناما لیکس کے ضمن میں احتجاج کررہی ہیں، ان سفارشات کو اپنے مطالبات میں شامل کرنے سے اجتناب کررہی ہیں کیونکہ ان سے طاقتور بدعنوان عناصر کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے 19 اگست 2013ء کو آئی ایم ایف کو ایک خط لکھا تھا جس میں قرضہ لینے کے لئے آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ تین برسوں تک بجلی و گیس کے نرخ بڑھاتے چلے جائیں گے اور پی آئی اے و پاکستان اسٹیل ملز سمیت متعدد اداروں کی نجکاری کرنے کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل سے ایک حالیہ میٹنگ میں حاصل کرلی گئی ہے حالانکہ ایسی کوئی منظوری حاصل کی ہی نہیں گئی، تمام سیاسی پارٹیاں اس معاملے پر بوجوہ خاموش ہیں۔ ظاہر ہے کہ موجودہ ہنگامہ آرائی کا مقصد لوٹی ہوئی دولت کی واپسی نہیں ہے۔ ہمارا تخمینہ ہے کہ اگر پاکستان میں کرپشن کے ذریعے ایک ارب روپے کی رقوم حاصل کی جاتی ہیں تو اس میں سے تقریباً 400 ملین روپے قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر منتقل کردیئے جاتے ہیں جبکہ 600 ارب روپے مختلف اثاثوں کی شکل میں ملک کے اندر ہی رکھے جاتے ہیں۔ یہ اثاثے جائیدادوں، گاڑیوں، بینکوں کے ڈپازٹس، قومی بچت اسکیموں، اسٹاک مارکیٹ کے حصص اور حکومتی تمسکات کی شکل میں ہوتے ہیں اور ان اثاثوں کی تفصیلات بمعہ قومی شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ میں موجود ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ملک میں ہر قدم پر ’’پاناما لیکس‘‘ موجود ہیں۔ اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ان ناجائز اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کیا جائے تو موجودہ مالی سال میں ہی ٹیکسوں کی مد میں دو ہزار ارب روپے کی وصولی ممکن ہے۔ یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر ملک میں پرتشدد احتجاج تو ہوتا ہے لیکن ملک کے اندر موجود اثاثوں سے قانون کے تحت نمٹنے کے لئے بات بھی کی ہی نہیں جارہی کیونکہ اس ضمن میں اقدامات سے ملک کےطاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سپریم کورٹ پاناما لیکس کے مقدمے میں اس معاملےکو اولیت دیکر فوری طور پر احکامات جاری کرے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ یقیناً ایک بڑی قومی خدمت ہوگی۔
وطن عزیز میں یہ بات بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔ یہ سوچ غیر حقیقت پسندانہ ہے، ہم بہرحال سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے کے نتیجے میں پاکستان میں انفرا اسٹرکچر بہتر ہونے، توانائی کی قلت پر قابو پانے اور گوادر پورٹ کی ترقی ہونے سے جو مواقع اور ماحول پیدا ہو گا ۔اگر ان سے کماحقہ فائدہ اٹھایا جائے اور خود پاکستان کی طرف سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے تو پاکستان کی قسمت یقیناً بدل سکتی ہے۔ اس ضمن میں اقدامات اٹھانا ہوں گے ان کی تفصیلات ہم ان ہی کالموں میں پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ بات یقیناً خوش آئند ہے کہ معیشت میں پائیدار بہتری لانے، دہشت گردی پر قابو پانے اور پاک چین راہداری سے پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی قسمت بدلنے کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان میں یکسانیت ہے۔ یعنی ان اقدامات کے اٹھانے سے ان تینوں مقاصد کے حصول میں پیش رفت ہوگی۔ اگر خدانخواستہ یہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ تینوں مقاصد حاصل نہ ہوسکیں گے۔


.
تازہ ترین