• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم اگر پہلی اور دوسری قوت کنٹرول میں ہو تو پھر تیسری قوت کا خوف نہیں ہوتا، قبلہ اگر بال ٹمپرنگ یا میچ فکسنگ نہ کی ہو تو پھر تھرڈ ایمپائر سے ڈر نہیں لگتااور حضورِ والا جب آپکی طرح آپکی جمہور بھی خوشحال ہو جائے گی تب آپکی جمہوریت کو بھی کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔
ویسے قائد ِ ذی وقار! آپکو کس نے کہہ دیا کہ ہمیں جمہوریت نہیں چاہئے،ہاں یہ سچ کہ ہم 20کروڑاب آمریت میں چھپی جمہوریت یا جمہوریت میں چھپی آمریت نہیں چاہتے،لیکن یہ بھی سچ کہ ہمیں چاہئے جمہوریت ہی،مگر وہ نہیں جو جمہور کو ڈنڈے مارے، جو بوڑھوں کو سڑکوں پر گھسیٹے او رجوبہنوں اور بیٹیوں کی تعظیم نہ کرے، ہمیں جمہوریت چاہئے مگر وہ نہیں جو دُکھ سُکھ کی ساتھی نہ ہو، جس کی نظر میں سب برابر نہ ہوں، جو تنقید پر غصہ کھائے اور جو Push upsسے بھی گھبرائے۔ ہمیں جمہوریت چاہئے مگر وہ نہیں جو اپنوں پر کڑکے، گرجے، برسے اور غیروں کے آگے بھیگی بلی بن جائے، جو مودی کے ساتھ ہیپی برتھ ڈے کا کیک کاٹے اور جو حسینہ واجد کے سامنے گونگی بن جائے۔ ہمیں جمہوریت چاہئے مگر وہ جس میں یا تو ہربلاول بلٹ پروف کاروں میں پھرے یا پھر سب بلاول گلیوں اور بازاروں میں پیدل چلیں، جس میں یاتو تمام حسنوں اور حسینوں کی’’ آف شور دولتیں‘‘ نہ ہوں یا پھر سب ایک ہی رفتار سے ترقیاں کریں اورجس میں یا تو ہر مریم مقدر کی سکندر ہو یا پھر سب مریموں کا نصیب ایک سا ہو جائے۔ ہمیں جمہوریت چاہئے مگر وہ جو یا تو بااختیاروں کی کرپشن روک لے یا پھر بے اختیاروں کی دونمبریا ں بھی برداشت کرے، جو یا تو صاحبوں کو بھی من مانی نہ کرنے دے، یاپھر کمی کمینوں کی گستاخیاں بھی سہہ جائے اور جس میں یاتو سب تھانے کچہریوں میں دھکے کھائیں یا پھر سب کوبر وقت انصاف مل جائے۔ ہمیں جمہوریت چاہئے مگر وہ جس میں یا تو سب کو منرل واٹر ملے یا پھر سب کے معدوں میں ایک سا پانی جائے، یاتو سب کا علاج سرکاری اسپتالوں میں ہو یاپھر سب چیک اپ باہر کروائیں اور جس میں یا تو سب کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں یاپھر سب اپنے بچے انگریزی ا سکولوں میں پڑھائیں۔ ہمیں جمہوریت چاہئے مگر وہ جس میں یا تو سویلین اور ملٹری والے ایک Pageپر ہوں یا کوئی اپنی حد سے باہر نہ آئے،یا تو ہر قلم آزاد ہو یا پھر سب کیلئے ایک حد مقرر ہو جائے اور جس میں یاتو کسی کی کوئی نہ سنے یا پھر سب کی مانی جائے۔ ہمیں جمہوریت چاہئے مگر وہ جس میں یا تواوپر والے بھی جوابدہ ہوں یا نیچے والوں کا کوئی سوال نہ رہے، یا تو عوام کا خون بھی نہ بہے یا پھر دھماکوں میں ایاز کے ساتھ محمودبھی کام آئے، یا تو پولیس کسی کی بھی حفاظتیں نہ کرے یا پھر’’ نتھو خیرا‘‘بھی وی آئی پی ہو جائے اور جس میں یا تو بڑوں کو بھی ٹیکس بابو اور پٹواری تنگ کریں یا پھر سب کی جان چھوٹ جائے۔ ہمیں جمہوریت چاہئے مگر وہ جس میں یا تو کوئی بھی کچھ چھپا نہ سکے یاکسی سے بھی کچھ پوچھا نہ جائے،یاتو سب جھوٹ سزا وار ٹھہریں یا پھر کوئی سچ پہ پہرے نہ بٹھائے اور جس میں یا تو ٹیکسوں پرکوئی بھی موجیں نہ کرے یا پھر سب کو کھلی چھٹی مل جائے۔ ہمیں جمہوریت چاہئے مگر وہ جس میں یاتو بڑے پیٹ بھی چاک ہوںیا سب کا پیٹ بھرے، یاتو کسی چہرے پر لالیاں نہ ہوں یاکسی کا لاغر پن نہ رہے اور جس میں اگر عمران خان کا پرویز مشرف کے ریفرنڈم کا ساتھ دینا جرم ٹھہرے تو پھر ’’ضیائی نرسری ‘‘ میں پھلنے پھولنے والوں سے بھی پوچھا جائے۔
ہاں عالی جاہ! ہمیں چاہئے تو جمہوریت ہی مگر وہ نہیں جو صرف چند خاندانوں کی، وہ بھی نہیں جو صرف مسکین عوام کی، ہمیں وہ جمہوریت چاہئے جو سب کی ہو، جو سب کو اپنا سمجھے، جو سب کو ایک سا پیار کرے، جو تلاشی لے توپھر تلاشی دے بھی، لہذا قائدِ محترم اگر آپ ایسی جمہوریت دینے کیلئے تیار ہیں تو ’’ست بسم اللہ ‘‘ ورنہ نہیں چاہئے محروم جمہوریت، غلام اور مظلوم جمہوریت، نہیں چاہئے متضاد اور متصادم وعدوں والی جمہوریت، طفل تسلیوں اور خالی نعروں والی جمہوریت، نہیں چاہئے وہ جمہوریت کہ جس میں کھلانے والے ہی کھانے والے اور دینے والے ہی لینے والے، نہیں چاہئے وہ جمہوریت جس میں میرا بچہ آنسو گیس سے مرے تو قیمت 10لاکھ،لیکن تیرے بچوں کو کوئی’’ چیک ‘‘ہی کرلے تو ساری جمہوریت خطرے میں پڑجائے، نہیں چاہئے وہ جمہوریت کہ جس میں ایک فیصد کے لئے تو ہر میوہ لیکن 99فیصد کے لئے صرف وعدۂ حور، نہیں چاہئے وہ جمہوریت جو 150ملکوں میں کرپشن میں 103ویں، شرح خواندگی میں 144ویں جبکہ غذائی قلت میں 103ویں نمبر پر ہو، نہیں چاہئے وہ جمہوریت جو بدترین ساکھ کے اعتبار سے دنیا بھر میں تیسری اور لاقانونیت کے حوالے سے آٹھویں پوزیشن رکھے، نہیں چاہئے وہ جمہوریت کہ جس میں ہر کارروائی کے بعد ’’شودر‘‘ دھر لئے جائیں اور’’ برہمن ‘‘ بچالئے جائیں اور نہیں چاہئے وہ جمہوریت کہ جس میں ہر واردات کے بعد بات ’’آلہ قتل ‘‘ تک پہنچ کر ختم ہو جائے،عالی مرتبت یہاں یہ Doubtبھی Clearکر تا جاؤں کہ آپ ہر میچ اس لئے نہیں جیت جاتے کہ آپ کی بیٹنگ مضبوط یاہماری باؤلنگ کمزور،آپکی پلاننگ اعلیٰ یاہماری Strategy ناقص،آپ اس لئے ہر بار جیتو اور ہم اس لئے ہر دفعہ ہاریں کہ ہمارے ایمپائرز بھی آپ کے کھلاڑی بن گئے، مگرظّلِ الہی آپ یہ تو جان ہی گئے ہوں گئے کہ اب اس کھیل تماشے کے خاتمے کے دن آپہنچے اور اب ایسی فلمیں اور ڈرامے دیکھے جانے کے دن بیت گئے، تبھی تو ایک طرف لمحہ بہ لمحہ آپکی گھبراہٹ اور بے چینی بڑھتی جارہی، چہرے کا پسینہ اور چال میں لڑکھڑاہٹ واضح ہوتی جارہی اور دوسری طرف سب جان گئے کہ دال میں کچھ کالا نہیں، ساری دال ہی کالی اور چور کی داڑھی میں تنکا نہیں بلکہ پوری داڑھی ہی تنکوں سے بھری ہوئی لہٰذا اس سے پہلے کہ سمے بیت جائے اب قبلہ آپ بھی یہ مان جائیں کہ اگر پہلی اور دوسری قوت کنٹرول میں ہو تو پھر تیسری قوت کا خوف نہیں ہوتا، محترم اگر بال ٹمپرنگ یا میچ فکسنگ نہ کی ہو تو پھر تھرڈ ایمپائر سے ڈر نہیں لگتا اور حضورِوالا جب آپکی طرح آپکی جمہور بھی خوشحال ہوجائے گی تب آپکی جمہوریت کو بھی کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔

.
تازہ ترین