• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی قوم 70سال سے منزل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ حکمران، سیاستدان، قانون دان، قلم کار، شاعر، کالم نویس کہنے پر مجبور ہیں کہ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومتیں عوام کو سبز باغ دکھاتی ہیں کہ وہ صبح کبھی تو آئے گی۔ ملک کے امراء، تاجر اور صنعت کار مال و زر سے سرشار ہیں مگر عوام کو غربت کے 147ویں نمبر پر دھکیل دیا گیا ہے۔ علما اور مذہبی جماعتیں اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود ملک میں بدعنوانی، رشوت ستانی اور غیر اسلامی اقدار کی یلغار کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ ملک کے نامور اور بااثر قانون دان اور آئینی ادارے قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حکومتی دفاتر میں سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلتا اور جائز معاملات میں بھی رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات سنگین ملکی مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ٹاک شوز اور خبروں میں آنے والے دانشور ملک کے بنیادی مسائل کا واویلا کرتے ہیں مگر تمام آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہیں۔ ارباب حل و عقد عوام کے بنیادی مسائل پانی، بجلی، مہنگائی، رشوت ستانی، سفارش، اقرباپروری، دہشت گردی، ہیروئن کلچر اور کلاشنکوف کلچر پر قابو پانے میں قطعی بے بس ہیں۔ ہمارا ملک دنیا بھر میں غربت میں 147ویں نمبر پر کھڑا ہے جبکہ تعلیم و صحت میں 150ویں، کرپشن میں 122ویں، فی کس آمدنی میں 133ویں نمبر پر ہے۔ پورے ملک میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ بجلی نایاب ہے، ٹرانسپورٹ عنقا ہے، سڑکیں شکستہ حال ہیں۔
تمام دن حکمراں طبقہ اور اشرافیہ قیمتی سوٹ اور ٹائی زیب تن کر کے اپنی علمی کمتری، اخلاقیات کے فقدان اور دروغ گوئی پر مبنی فیشن شوز کرتے ہیں۔ بلند و بانگ جھوٹے دعوئوں کے انبار لگاتے ہیں، عوام کے سامنے ملکی ترقی کے حقیقت سے دور غلط اعداد و شمار پیش کرتے ہیں جبکہ عوام میں خوشحالی کے آثار مفقود اور ناپید ہیں۔ حکومت روزمرّہ کے ملکی معاملات چلانے کیلئے بے دھڑک بیرونی اور اندرونی قرضے حاصل کرتی ہے۔ آج ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 80ارب ڈالر جو کہ 2018ء تک 90ارب ڈالر ہو جائے گا۔ قرض کی ادائیگی کی سالانہ قسط 5ہزار ڈالر ہے جبکہ اندرونی قرضے 10ہزار ارب روپے ہیں۔ ہمارا ملک دنیا کے ایک درجن ممالک اور اداروں کا مقروض ہے جن میں سرفہرست عالمی بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، آئی ایم ایف، بینک آف چائنا، قومی بینک، امریکا، چین، جاپان، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور کئی چھوٹے ممالک سے قرضے لے کر ملک کی آنے والی نسلوں تک کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔ آئندہ کئی دہائیوں تک ملک کے عوام قرضوں کے بوجھ سے نجات نہیں حاصل کر سکیں گے اور ملک کے حکمران، اسٹیبلشمنٹ اور آنے والی حکومتیں اپنی آزادانہ پالیسی بنانے سے قاصر رہیں گی اور بڑی طاقتوں کی معاشی اور اقتصادی غلامی کے باعث ان کے احکامات پر سر بہ سجود ہونے پر مجبور ہوں گے۔ بہ ظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ پاکستان ایک روبہ زوال ملک بن چکا ہے جس میں ترقی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ملک کو اقتصادی امداد کے ذریعے مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھنے میں عالمی قوّتوں کا اپنا مفاد ہے۔ حال ہی میں آئی ایم ایف کی صدر نے ڈھارس بندھائی ہے کہ پاکستان ترقی پذیر ہے مگر کرپشن اور بدانتظامی پر کنٹرول ضروری ہے۔ ان ممالک کو بیس کروڑ عوام کا ایک ملک چند سکّوں کے عوض معاشی غلامی میں مل گیا ہے۔ گزشتہ صدیوں میں یورپی طاقتیں فوج کے ذریعے ایشیا، افریقا اور دنیا کے بیشتر ممالک پر قابض رہیں مگر عالمی طاقتوں کا انداز حکمرانی تبدیل ہو گیا ہے۔ اب شخصی یا ملٹری غلامی کی بجائے ہمارے جیسے ملکوں کو معاشی غلامی میں جکڑ لیا گیا ہے۔ اسی طرح عالمی طاقتیں جنگ عظیم دوم کے بعد کسی چھوٹے ملک کو بڑے ملک کے تسلّط کا شکار نہیں ہونے دیتیں نہ ہی کسی ملک کو معاشی غلامی سے آزاد کرتی ہیں۔ سپر طاقتیں اپنی بالادستی قرضہ جات، اسلحہ کی ترسیل کیلئے خانہ جنگی اور چھوٹے پیمانے کی جنگوں تک محدود رکھتی ہیں۔ انڈیا اور پاکستان میں معمولی سرحدی جھڑپیں 1965, 1971اور 1999ء میں کارگل کی جنگیں لاحاصل رہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل، فلسطین، عراق، شام، یمن لاحاصل جنگ، قتل و غارت گری، تباہی و بربادی کا شکار ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے دوران سوئٹزرلینڈ ایک ایسا ملک تھا جو عالمی جنگ میں غیر جانب دار رہا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہا جبکہ یورپ، ایشیا اور افریقا کے بیشتر ممالک تباہی و بربادی کا شکار رہے۔ اب بھی موجودہ عالمی حالات کے باعث انڈیا، پاکستان، افغانستان، عراق، شام، ترکی، یمن اور لیبیا خانہ جنگی کی وجہ سے بربادی کا شکار ہیں۔ صلح، امن و آشتی کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں اور نہ ہی عالمی طاقتوں کو مشرق وسطیٰ، کشمیر، یمن یا افریقی ممالک کے امن سے دلچسپی ہے جس طرح کہ پاکستان اور انڈیا میں صلح صفائی، امن مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ بہ ظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل موجودہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے بس سے باہر ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی علمی قابلیت اور ذہانت ملکی مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ اسی طرح کرپشن، سفارش، اقرباپروری، غیرقانونی بھرتیوں اور خوشامدی نظام میں ملوّث ہو کر سول سروس کی کارکردگی بے اثر ہو چکی ہے۔
پاکستانی قوم بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہے۔ ہمارا مذہب، ہماری ثقافت مغربی اور انڈین تہذیب کی یلغار سے لرز رہی ہے۔
انڈیا سے لاحاصل گرم اور سرد جنگ، نوک جھونک میں 70سال گزر گئے۔ نہ تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوا نہ سرحدوں کا تنازع طے ہوا۔ ملک کی سماجی و سیاسی اقدار پامال ہوئیں، دونوں طرف بڑی افواج رکھنے سے قیمتی سرمایہ خرچ ہوا۔ پاکستان مسئلہ افغانستان میں ملوّث ہو گیا، امریکا اور روس کے عالمی تنازع میں الجھ کر رہ گیا۔ اسلامی ممالک کے اتحاد میں مؤثر کردار ادا نہ کر سکا اور پڑوسی ممالک کے تعلقات بہتر نہ ہو سکے۔ ملک کے اندرونی حالات، بدامنی، لاقانونیت، دہشت گردی میں آج دنیا کے 113میں لاقانونیت میں پاکستان 106نمبر پر کھڑا ہے اور ملک کے عوام، خواص، اسٹیبلشمنٹ، سیاستدان، وکلاء، کاروباری حضرات قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور سوال پیدا ہوتا ہے، منزل کہاں ہے تیری، اے لالۂ صحرائی۔

.
تازہ ترین