• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی کابینہ کی جانب سے توثیق کے بعد اگرچہ نیا کمپنیز بل 2016منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں بھجوایا جائیگا لیکن وفاقی کابینہ کی جانب سے اس کی توثیق کو بیرون ملک رقوم کی ناجائز ترسیل روکنے کے لئے ایک بہت بڑی پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں ایس ای سی پی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں شراکت داری رکھنے والے پاکستانیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتا ہے جبکہ ایسی کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز اور افسران کے لئے بھی یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کی تمام تفصیلات سے ایس ای سی پی کو مطلع کریں پاکستان میں اس وقت تک 1984 کا کمپنیز بل ہی رائج ہے جو مالیات کی دنیا میں ہونے والے نت نئے رجحانات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ 32سال بعد اس قانون میں تبدیلی بدلے ہوئے حالات میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کی منظوری کے بعد کسی بھی پاکستانی کے لئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ متعلقہ حکومتی اداروں کو مطلع کئے بغیر غیر ملکی کمپنیوں میں خفیہ طور پر سرمایہ کاری کرسکے۔ مختلف ممالک سے قومی دولت کو لوٹ کر آف شور غیر ملکی کمپنیوں میں جمع کرانے کا دھندہ کتنا وسیع ہے اس کا اندازہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آف شور کمپنیوں میں جمع کی جانے والی رقم کا تخمینہ تقریباً 32 کھرب ڈالر کا ہے جس سے ہونے والی ٹیکس گریزی سے مختلف ممالک کو سالانہ 3کھرب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے اسی وجہ سے دنیا کے تمام مہذب ممالک میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ سرمایہ کاروں کی تمام خفیہ ’’جنتوں‘‘ کا سراغ لگا کر ان کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان میں نئے کمپنیز بل 2016کی وفاقی کابینہ سے توثیق اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس کی منظوری کے بعد کسی بھی پاکستانی کے لئے آف شور کمپنیوں میں خفیہ طریقے سے رقوم منتقل کرنا اور حکومت کے مالیاتی اداروں کو اس سے بے خبر رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔

.
تازہ ترین