• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں آغاز میں ہی وضاحت کردوں کہ یہ کالم عمرا ن خان کے بارے میں نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے کارکنوں نے پریڈ گرائونڈ میں جو دھماچوکڑی مچائی، اسے یوم تشکر کہا جائے یا یوم تفکر کا نام دیا جائے، یہ یوم فتح تھا، یوم شکست یا پھر شام ِغریباں،میں اس لاحاصل بحث پر اپنے الفاظ ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ خجالت وشرمندگی سے عرق آلود قیادت نے خفت مٹانے کیلئے جس جلسے کا اہتمام کیا اس میں شرکاء کی تعداد دس ہزار تھی، دس لاکھ یا پھر دس کروڑ،مجھے اس لایعنی و بے معنی گفتگو سے بھی کوئی سروکار نہیں۔کس کی جیت ہوئی اورکس کی ہار،یہ سوال بھی اتنا ہی بے مقصد ہے جتنابے معنی یہ استفسار کہ اس فیصلے نے سیاسی فہم و فراست کی کوکھ سے جنم لیا یا پھر ڈوبتے نے تنکے کا سہارا لینے پر اکتفا کیا۔ سوالات تو بہت ہیں،مثال کے طور پرعمران خان کو ایک مرتبہ پھر بند گلی میں کس نے دھکیلا اور وہ کیا سوچ کر اس گلی میں داخل ہوئے جس سے دو برس قبل ہی بے آبرو ہو کر نکلے تھے؟کیا اس مرتبہ امپائر ان کے ساتھ نہیں تھا یا پھر اسکرپٹ کے عین مطابق دوبارہ انہیں ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا گیا؟ان سوالات اور دیگر موضوعات پر تجزیہ نگاری کی دھاک بٹھانے اور ہتھیلی پر سرسوں اگانے والے وہ نجومی تو ٹی وی چینلز پر بہت ہیںجو کل تک بتا رہے تھے کہ قربانیوں کا سلسلہ پرویز رشید تک نہیں تھمے گا،خواجہ آصف اپنے اہلخانہ سمیت دبئی بھاگ گیا ہے، جلد ہی نوازشریف کی چھٹی ہونے والی ہے اور انقلاب کا سیلاب اسلام آباد کو خس و خاشاک کی مانند بہا لے جائے گا،ان میں رتی بھر شرم و حیاء ہو تو چلو بھر پانی میں ڈوب مریں یا پھر تجزیہ نگاری چھوڑ کر کوئی ڈھنگ کا کام کر لیں۔گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے ترازو کا عنوان تھا’’عمران خان کا شو ختم ہو گیا‘‘اور اس کے بعد پیر کو شائع ہونے والے کالم ’’اور نکلیں گے عشاق کے قافلے‘‘میں بھی اشاروں کنایوں کے بجائے واضح غیر مبہم اور دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ ’’جمہوریت پسندوں کو دل شکستہ یا دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں‘‘۔خواہش کو خبر بنانے والو ں کو چھوڑیئے، میں تو عمران خان پر تبریٰ کرنے کا روادار نہیں۔عمران خان کو کوسنے دینے اور لعن طعن کرنے کا کام انہیںمبارک جو محض اس لئے انقلاب کی آڑ میں انتشار کی آگ دہکا کر سب کچھ جلا کر راکھ کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی دانشوری چمک اٹھے۔جن کے ارمان اور حسرتیں دل میں رہ گئیں،وہ جلی کٹی سنائیں یا دل کے پھپھولے جلائیں،ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔جن کی دکانداری ٹھپ ہو گئی، وہ ڈگڈگی بجانے والے کسی نئے مداری کی راہ دیکھیں یا بڑے ہو جائیں اوراس کھیل تماشے سے توبہ تائب ہو جائیں،ان کی مرضی۔
میرا یہ کالم ان ذی شعوراور معقول افراد کیلئے ہے جو جمہوریت پرایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں، وہ لوگ جو پاکستان میں امن و استحکام کے خواہاں ہیں،جن کی خواہش ہے کہ یہ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو،جن کی تمنا ہے کہ ہمارے ہاں سب ادارے اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کریں،جن کی آرزو ہے کہ جمہوری ادارے مستحکم ہوںاور سویلین بالادستی کا خواب پورا ہو، میرا خیال ہے کہ ان سب کو ملکر ’’یوم تشکر‘‘منانا چاہئے۔آپ ہی بتائیں’’برمودا ٹرائی اینگل ـ‘ـ‘ جس کے بارے میں مشہور ہو کہ یہاں داخل ہونے والا کوئی جہاز سلامت نہیں رہتا۔’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ جس کے پاتال میں ٹائی ٹینک سمیت غرقاب ہونے والے کئی چھوٹے بڑے جہازوں کا ملبہ چارسو بکھرا پڑاہو،اس خطرناک سمندر میں ایک چھوٹی سی کمزور نائو طوفانوں میں ہچکولے کھاتی، مد و جزر اور جوار بھاٹا سے بچتی ہوئی ساحل سے جا لگے اور دوسری کشتی بھی منجدھار سے نکل کر، خوفناک شارکوں سے دامن چھڑاتے ہوئے منزل کی جانب رواں دواں ہو تو ’’یوم تشکر‘‘ کیسے نہیں بنتا؟
وہ لوگ جو چوراہوں میں عوامی عدالتیں سجانا چاہتے تھے،جن کا خیال تھا کہ دھونس اور جبر کے بل بوتے پر کسی کی بھی تلاشی لی جا سکتی ہے،وہ جو جلائو گھیرائو کی باتیں کیا کرتے تھے،جن کے بارے میں تاثر تھا کہ انہیں کسی کی آشیرباد اور سرپرستی حاصل ہے،اگر وہ طوعاً و کرہاً ہی عدالتی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے محض درخواست سماعت کیلئے منظور ہونے پر فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے گھروں کو لوٹ گئے تو ’’یوم تشکر‘‘تو بنتا ہے۔اب یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے کہ پانامہ لیکس میں نام آنے کا مطلب رنگے ہاتھوں پکڑے جانا ہے یا پھر یہ سیاسی بیان بازی ہے۔اور اگر آف شور کمپنیاں بنانا غلط ہے تو کسی ایک کی آف شور کمپنی حلال اور جائز اور دوسرے کی ناجائز اور حرام کیسے ہو سکتی ہے؟اب نواز شریف اور عمران خان دونوں بیک وقت مدعی بھی ہیں اور ملزم بھی۔دونوں کی اہلیت اور نااہلیت کا فیصلہ ہونا ہے۔آئین میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ عدالت ٹی اوآرز بنا کر عدالتی کمیشن تشکیل دے سکے مگر حکومت نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ پیشکش کی ہے کہ تحقیقات کا راستہ ہموار کرنے کیلئے قانونی راستہ نکالا جائے گا۔
مجھے تو لگتا ہے عدالت نے مصلحت کے پیش نظر پانی میں مدھانی مارنے پر آمادگی ظاہر کی ہے ورنہ پانامہ لیکس کی کچی لسی سے کچھ نکلنے کی توقع نہیں۔وہ جو اس توقع پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ اٹھاون ٹوبی کی کمی اس بار عدالت پوری کرے گی، انہیں ایک مرتبہ پھر مایوسی ہو گی۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ فیصلہ کن سمندری طوفان تھا جس سے جمہوریت کی کشتی بخیر وعافیت نکل آئی ہے،اب تاحد نگاہ مطلع صاف ہے، راستے میں کسی ’’برمودہ ٹرائی اینگل‘‘ کے آثار نہیں،منزل سامنے دکھائی دے رہی ہے،آئندہ چند روز میں نئے سپہ سالار کا اعلان ہو جائے گااور اس کے ساتھ ہی رہی سہی افواہیں، سرگوشیاں اور پراپیگنڈا بھی دم توڑ جائے گا۔کرپشن کا طائون، بدانتظامی کی چیچک اور نااہلی کا خسرہ توابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ وبائی امراض ختم ہونے میں وقت لگتا ہے۔مگر حالات کے بے رحم تھپیڑوں، سمندری قزاقوںاور جہاز الٹ دینے والی خوفناک شارکوں سے بچتی ہوئی جمہوریت کی ایک اور نائو ساحل کی طرف بڑھ رہی ہے، تو مسافر خوش کیسے نہ ہوں۔یوم تشکر تو بنتا ہے جناب!

.
تازہ ترین