ہمارا الیکٹرانک میڈیا ابھی بالغ نہیں ہوا۔ وہ ہمیشہ جذبات کے ساتھ کھیلتا ہے۔ جب کنٹینر لگے ہوئے تھے اور لاٹھیاں برسائی جا رہی تھیں تو میڈیا اسے ظلم قرار دے رہا تھا، زیادتی قرار دے رہا تھا مگر جونہی یہ سلسلہ رکا یعنی کنٹینر ہٹائے گئے اور لاٹھیاں رکیں تو اسے کسی نے این آر او قرار دیا تو کسی نے سیاسی غلطی قرار دیا۔ ہمارے میڈیا پر وہ لوگ تجزیے کر رہے ہوتے ہیں جن کی عمر ابھی رپورٹنگ کرنے کی ہے، جنہیں ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، جنہیں تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے، جنہیں اس احساس کی ضرورت ہے کہ ان کے ادا کئے ہوئے لفظوں سے بہت سے جذبات وابستہ ہوتے ہیں، انہیں لوگوں کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہئے۔ بہت سے ٹی وی اینکرز ایسے ہیں جن کا صحافیانہ تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے، بہت سے ایسے ہیں جو ملکی تاریخ سے واقفیت نہیں رکھتے، بعض تو ایسے ہیں جو غلط تاریخی حوالے دیتے ہیں۔ میری ایسے تمام خواتین و حضرات سے گزارش ہے کہ آپ پاکستان قوم کے جذبات سے نہ کھیلا کریں، آپ کی کمنٹریاں ایسے ہوتی ہیں جیسے آپ جنگی محاذ پر ہوتے ہیں، آپ پاکستان کا جو ’’چہرہ‘‘ دنیا کو دکھا رہے ہوتے ہیں وہ مناسب نہیں، پاکستان ایک بہت اچھا ملک ہے۔ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے، پاکستان میں ہر طرف دہشت کا موسم نہیں، پاکستانی لوگ امن پسند ہیں، پاکستان کے لوگوں نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ان لازوال قربانیوں کی قدر کریں، بعض ایسے اینکرز ہیں جن کے پچھلے دس سالہ کورس میں روز حکومت گرانا شامل ہے۔ ٹی وی اینکرز سے گزارش ہے کہ وہ ایسی باتوں سے گریز کیا کریں جن سے منفی تاثر ابھرتا ہو کیونکہ سب کچھ تو ویسے ہی لوگوں کے سامنے ہوتا ہے۔ میں چوہدری نثار علی خان کے اس جملے کو داد دیتا ہوں کہ ’’کسی کی ہار جیت نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے‘‘۔ اگر غور کریں تو دھرنا ملتوی کرنے کا فائدہ پاکستان کو ہوا ہے کیونکہ اگر تصادم ہوتا تو پاکستان کو نقصان ہوتا لہٰذا جو لوگ عمران خان کے فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں ان کی تنقید درست نہیں ہے۔ عمران خان نے درست فیصلہ کیا ہے، ویسے بھی جب معاملہ عدالت میں ہو تو پھر انصاف کی طرف دیکھنا چاہئے۔ گلیوں اور بازاروں کو تصادم گاہ نہیں بنانا چاہئے۔ اب اس بحث میں الجھنا کہ عمران خان کے جلسے میں دس لاکھ لوگ آئے یا نہیںآئے، یہ بھی غلط ہے کیونکہ مقبول ترین رہنمائوں کے جلسوں میں کرسیاں نہیں گنا کرتے، ان کا جلسہ مختصر نوٹس پر ہوا، اسے ایک بڑا جلسہ کہا جا سکتا ہے۔
پاناما کیس پر سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے۔ جمعرات کو سماعت ہوئی، اب یہ سماعت پیر کے روز ہو گی تین نومبر کو باقی فریقین نے ٹی او آرز جمع کروائے جبکہ وزیر اعظم کے وکیل نے میاں نواز شریف کی طرف سے یہ جواب دیا کہ ’’میاں نواز شریف کی کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے، نہ ہی وزیر اعظم لندن فلیٹس کے مالک ہیں بلکہ یہ فلیٹس ان کے بچوں کے ہیں ‘‘ عدالت یہ سب کچھ تحریری صورت میں مانگ رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے وکیل سے کہا کہ وہ ٹی او آرز جمع کروائیں۔ عدالت میں ایک غیر سیاسی فریق نے دو نومبر ہی کو ٹی او آرز جمع کروا دیئے تھے۔ یہ وہی غیر سیاسی فریق ہے جس نے اپوزیشن کو ستر سوال بنا کر دیئے تھے اب اس فریق نے نوے سے زائد سوالات سامنے رکھ دیئے ہیں۔ اس غیر سیاسی فریق نے 26ٹی او آرز جمع کروائے ہیں۔ یہ ٹی او آرز ایسے ہیں کہ اگر ان پر عملدرآمد ہو گیا تو مستقبل میں ملک کے اندر کرپشن کے تمام دروازے بند ہو جائیں گے۔ سپریم کورٹ کے باہر ہر کوئی پریس کانفرنس سجا کر دل کی بھڑاس نکال رہا ہے، اب دعوے اور الزامات کے بجائے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے اب جب تمام فریق عدالت کے دروازے پر ہیں تو ان سب کو انصاف کا انتظار کرنا چاہئے۔ ویسے تو عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ ’’میرا کیس سب سے الگ ہے، سب سے سادہ ہے، میرے مقدمے کے تحت جیسے باقی نو ممبران کو نااہل قرار دیا گیا تھا ویسے ہی وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جائے ‘‘ شیخ صاحب کو بھی انتظار کرنا چاہئے کیونکہ اب سب انصاف کے دروازے پر جمع ہیں، اب تو سب نگاہیں سپریم کورٹ آف پاکستان پر ہیں میں گزشتہ رات کاغذات کے جو بنڈل دیکھ آیا ہوں اس کے بعد کسی بھی نااہل کا بچنا مشکل ہے۔
پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس کی خواہش تھی کہ پاناما لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ میں نہ جائے بلکہ ان کی تو یہ بھی خواہش ہے کہ کرپشن کا کوئی مقدمہ سپریم کورٹ میں نہ جائے پیپلز پارٹی ہر معاملہ پارلیمنٹ تک رکھنا چاہتی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی خواہش ہے کہ کرپشن کے خلاف کچھ نہ ہو اگر احتساب اصلی صورت میں ہو گیا تو پھر ان کے بہت سے رہنما نااہل ہو جائیں گے مگر اب یہ سفر شروع ہو گیا ہے اب بہت سے لوگوں کا بچنا مشکل ہو گیا ہے بس چند روزہ انتظار باقی ہے۔
کراچی میں کچھ رہائیاں ہوئی ہیں لگتا ہے ان رہائیوں کے بعد ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی ایک ہو جائیں گی۔ سنا جا رہا ہے کہ کراچی کے کور کمانڈر تبدیل ہو رہے ہیں اب کراچی کے نئے کور کمانڈر وہ صاحب ہوں گے جو پہلے بھی کراچی میں فرائض انجام دے چکے ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایک اہم انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔
افواہ یہ بھی ہے کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ بھی کور کمانڈر بن کر فرائض انجام دینے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور بڑے ادارے کے سربراہ تبدیل نہیں ہو رہے، انہیں ایکسٹینڈ کیا جا رہا ہے۔
امریکی الیکشن کی مہم زوروں پر ہے یہودی لابی کوشش کر رہی ہے کہ ٹرمپ ہر صورت میں جیتے، دوسری جانب مقبولیت میں ہیلری آگے ہے مگر پیسے کا زور ٹرمپ کے ساتھ ہے آپ کے شعری ذوق کے لئے ؎
اب کے معیار عدل کچھ بدلا ہے اس طرح
جتنے بھی اونچے گھر تھے وہ دریا میں بہہ گئے
.