• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان میں ہونے والی کشمکش بلا مبالغہ ہمارے دور کے دائمی اور قابو سے باہر مسائل میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے باربار اٹھنے والا سوال یہ رہا کہ کیا طالبان کابل حکومت کے ساتھ پرامن مذاکرات کریں گے یا جنگ جاری رکھنے کو ترجیح دیں گے ؟ یہ سوال ایک مرتبہ پھر اُس وقت کھڑا ہوگیا جب ایک نیوز رپورٹ نے دعویٰ کیا کہ قطر کے درالحکومت، دوحہ میں ستمبر اور اکتوبر میں طالبان کے نمائندوں اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات کے دو ادوار ہوئے ہیں۔ طالبان کی طرف سے، جیسا کہ توقع تھی، اس خبر کی فوری تردید سامنے آ گئی۔ پہلے دوحہ میں طالبان کے سیاسی کمیشن کے رکن، سہیل شاہین کی طرف سے اور پھر طالبان کے سرکاری ترجمان، ذبیح اﷲ مجاہد کی طرف سے۔ سہیل شاہین نے اس رپورٹ کو ایک سیاسی چال قرار دیا، جبکہ ذبیح اﷲ مجاہد نے اسے دوٹوک الفاظ میں مسترد کردیا۔
لیکن چونکہ خبر ایک قابل ِ اعتماد اخبار، ’گارڈین‘ نے شائع کی تھی، اس لیے اسے بیک جنبش ِقلم مسترد کردینا بھی ممکن نہ تھا۔ دوحہ میٹنگ میںامریکی افسران کی موجودگی کے ذکر نے خبر کی ساکھ کو مزید تقویت دی۔ طالبان کے کچھ ذرائع نے بھی میٹنگ کی تصدیق کردی۔تاہم یہ تمام حوالے بے نام ہی تھے، چنانچہ اس خبرکوافشا کرنے کی اہمیت اور محرک کا تعین کرنا دشوار تھا۔ اس کے بعد دیگر میڈیا تنظیموں نے بھی اس خبر کو نمایا ں کردیا، اگرچہ ’گارڈین‘ میں شائع ہونے والی اصل رپورٹ میں زیادہ اضافہ دیکھنے میں نہ آیا۔ صدر اشرف غنی کے دفتر اور افغان ہائی پیس کونسل، جس کے ذمے مسلح گروہوں کے ساتھ پرامن بات چیت کرنا ہے، نے بھی قطر میٹنگز سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ یہ بات حیران کن تھی کیونکہ کسی بھی امن مذاکرات کے لیے صدر غنی اور افغان ہائی پیس کونسل کی منظوری ضروری تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان کے اعلیٰ انٹیلی جنس افسر، محمد معصوم ستان کزئی نے دومرتبہ دوحہ میں ملّا عبدالمنان، جو کہ طالبان کے سپریم قائد، ملّا محمد عمر مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں، سے بالمشافہ ملاقات کی۔ افغان میڈیا کے کچھ سیکشنز ان ملاقاتوں میں صدر غنی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر، محمد حنیف اتمر کی موجودگی کی بھی اطلاع دیتے ہیں۔ زیادہ تر رپورٹس میں افغان افسران کا حوالہ دیا گیا تھا، جو ان ملاقاتوں کو اہم پیشرفت قرار دیتے ہیں۔
مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے تمام مواد کو جوڑتے ہوئے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اگر بالفرض ملّا منان نے معصوم ستان زئی سے ملاقات کی بھی ہے تو اُنھوں نے ایسا اپنی ذاتی حیثیت میں کیا تھا،اور وہ کسی طور تحریک ِ طالبان کی نمائندگی نہیں کررہے تھے۔ طالبان رہبری شوریٰ، جو کہ ان کی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز تنظیم ہے، اس منظر نامے میں موجود نہ تھی، اور نہ ہی طالبان کے سپریم لیڈر، ملّا ہیبت اﷲ نے اپنے نمائندوں کو افغان حکومت کے ساتھ ایسی کسی میٹنگ کیلئے گرین سگنل دیا تھا۔ مزید یہ کہ قطر میں موجود طالبان کا سیاسی کمیشن، جس کی سربراہی شیر عباس ستانکزئی کررہے ہیں، ان میٹنگز میں موجود نہ تھا، حالانکہ اس کے ایک درجن کے قریب ارکان دوحہ میں قطر حکومت کے مہمان تھے۔
ذہن میں آنے والا سوال یہ ہے کہ ملّا منان نے یہ ملاقاتیں کیوں اور کس حیثیت میں کیں؟وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ زیادہ تر طالبان رہنمااورملٹری کمانڈر اپنی کچھ شرائط مانے جانے کے بغیر افغان حکومت کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کے مخالف ہیں۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ طالبان قیادت کی اجازت کے بغیر ایسی پیش رفت نہیں کرسکتے تھے، جبکہ کچھ دیگر افراد کا دعویٰ ہے کہ ملّا منان ایک کمزوراور ناقابل ِ اعتماد شخص ہیں۔ اُن کا کہناہے کہ اُن کی واحد اہمیت یہ ہے کہ وہ ملّا عمر مرحوم کے واحدبھائی ہیں جو حیات ہیں، اگرچہ یہ صفت اُنہیں تحریک ِ طالبان کا چوٹی کا لیڈر بنانے کے لیے کافی نہیںسمجھی گئی۔ اُن کا کہنا ہے کہ ملّا عمر تحریک کے بانی ہونے کی وجہ سے بے مثال عزت کے حامل ہیں، چنانچہ تمام طالبان ملّا عمر کے خاندان کے افراد کی قدر کرتے ہیں۔
’گارڈین ‘ کی خبر میں ملّا یعقوب، جو ملّا عمر کے بیٹے ہیں کا بھی ذکر ہے کہ وہ بھی بات چیت کے اگلے دور میں شریک ہوں گے۔ اس طرح ملّا یعقوب، جن کی عمر بیس سال سے کچھ زیادہ ہے، پر توجہ مرکوز ہوگئی ہے۔ وہ طالبان گروپ کے دو ڈپٹی لیڈروں میں سے ایک ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے شخص حقانی گروہ کے چیف، سراج الدین حقانی ہیں۔ اگر ملّا یعقوب بھی امن مذاکرات میں شرکت کرتے ہیں تو اس کا مطلب تحریک ِطالبان میں ابھرنے والی ایک سنگین دراڑ ہوگا۔ تاہم ا س کا امکان کم کم ہے کہ نوجوان ملّا یعقوب کو تحریک کا امیر بنا دیا جائے۔ ملّا عمر کا بیٹا ہونے کے ناتے وہ کبھی بھی کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کے عمل میںشریک نہیں ہوں گے کیونکہ ملّا عمر اس بات کے سخت مخالف تھے۔ ایسی بھی رپورٹس ہیں جو ملّا یعقوب اور ان کے چچا ملاّمنان کے درمیان سنگین اختلافات کو بیان کرتی ہیں۔ اگر چچا اوربھتیجے کے درمیان اختلافات کی بات درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دونوں اپنی راہیں جدا کرسکتے ہیں۔ ملّا یعقوب موجودہ طالبان قیادت کے وفادار رہیں گے۔
ایسی صورت ِحال میں ملّا منان کے پرامن مذاکرات کی کوئی حیثیت نہیں اورنہ ہی اُن سے کوئی نتیجہ برآمد ہوگا۔ درحقیقت کوئی بھی طالبان قیادت سے انحراف کرکے اپنے تئیں پیش رفت دکھانے کی کوشش میں اپنی اہمیت کھو جاتا ہے۔ اس سے پہلے یہی کچھ آغاجان معتصم کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ وہ طالبان دور کے وزیر اور فنانس کمیشن کے سربراہ تھے، اور اُنھوں نے افغان حکومت کی مدد سے ایک متوازی تنظیم بنانے کی کوشش کی، لیکن ناکام ہوئے۔ کئی ایک طالبان سے انحراف کرنے والے لیڈراسی انجام سے دوچار ہوئے۔ حتیٰ کہ ملّا محمد رسول بھی اپنا الگ گروہ قائم کرنے میں ناکام ہوئے۔
جہاں تک افغان حکومت کا تعلق ہے تو اس کی مذاکرات کی پالیسی کسی اہم شخصیت سے بات چیت کرنے کی ہے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج طالبان کی طرف سے ہے۔ فی الحال افغان حکومت حکمت یار کے ساتھ امن معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، اور وہ اسے پیش رفت کو طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل تک پھیلانا چاہتی ہے۔ تاہم حکمت یار کے ساتھ معاہدہ کرنے کا اُنہیں کوئی عسکری فائدہ نہیں ہوا ہے، کیونکہ حکمت یار کے پاس جنگجووں کی کمی ہے۔ وہ افغان حکومت کے لیے چیلنج نہیں ہیں۔ صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداﷲ اس بات سے آگاہ ہیں کہ طالبان کی صفوں میں پڑنے والی قلیل دراڑیں طالبان کے مرکزی دھڑے کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبو رنہیں کرسکتیں۔ اس وقت جبکہ افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی انتہائی نچلے درجے پرہیں تو کابل طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اسلام آباد سے درخواست کرنے کا روادار نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کا طالبان کی قیادت بھی مشروط ہے۔ ایک طرح سے پاکستان طالبان کے رہنمائوں کو گرفتار کرکے اُنہیں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے مجبور کرسکتا ہے، لیکن اسلام آباد کا اثر فیصلہ کن عامل نہیں ہے۔ پاکستان کا کردار اہم ضرور ہے، اوراسے نظر انداز کرنے سے افغان کشمکش کا خاتمہ مشکل ہوگا۔


.
تازہ ترین