• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محرم الحرام کی آمد سے قبل حکومت ، علماء ، مذہبی و سیاسی جماعتیں اور پاکستان کے عوام ، پاکستان کی سلامتی کے ادارے ، سب محرم الحرام میں امن و امان کے قیام ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو روکنے ، بین المسالک رواداری پیدا کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دیتے ہیں۔ اگرچہ حالات کے کرب کی وجہ سے ان کوششوں کی ضرورت سارا سال رہتی ہے اور بعض تنظیمیں سارا سال بین المسالک و بین المذاہب رواداری کے لئے کوششیں کرتی رہتی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ حکومت کی طرف سے بالخصوص صوبائی حکومتوں کی طرف سے امن و امان اور مذہبی رواداری کے لئے ساری جدوجہد دو صورتوں میں ہی نظر آتی ہے یا تو خدانخواستہ کہیں حادثہ ہو جائے یا محرم الحرام کی آمد سے قبل۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران مذہبی جماعتوں میں سے چند جماعتیں اور شخصیات محرم سے قبل ایسی کوششیں کرتے ہیں کہ جس سے مذہبی رواداری اور مذہبی ہم آہنگی میں اضافہ ہو اور اگر کہیں پر مختلف مکاتب فکر کے درمیان کوئی مسائل موجود ہیں تو ان کو حل کر لیا جائے۔ گزشتہ دو سال سے دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان علماء کونسل اور دیگر مکاتب فکر کی قیادت قومی ، صوبائی ، ضلعی سطح پر قومی مصالحتی کونسل کے نام پر مختلف مکاتب فکر اور مذاہب کی قیادت کو جمع کر کے معاملات کی اصلاح کی کوشش میں مصروف رہتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی کوششوں میں تمام مکاتب فکر کی صف اول کی قیادت معاون و مددگار ہوتی ہے۔دو سال قبل پاکستان علماء کونسل نے ملک بھر کے علماء ، مشائخ ، مذہبی زعماء ، مفکرین اور دانشوروں سے مشاورت کے بعد ایک ضابطہ اخلاق تشکیل دیا تھا اس ضابطہ اخلاق کی تکمیل میں ملی یکجہتی کونسل سے لے کر مولانا عبد الستار نیازی کمیٹی تک بنائے جانے والے ضابطوں اور تجاویز سے مدد لی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس ضابطہ اخلاق پر گزشتہ سال نہ صرف مکمل طور پر عملدرآمد ہوا بلکہ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت نے بھی بھر پور معاونت حاصل کی۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پاکستان علماء کونسل کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران نہ صرف اس ضابطہ اخلاق کو بھر پور سراہا بلکہ اسے قانونی شکل دینے کے معاملے پر بھی بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا۔یہ بات مسلمہ ہے کہ اگر اس ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل ہو جائے اور اسے قانونی شکل مل جائے تو پاکستان میں فرقہ ورانہ تشدد ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے میں بھرپور مدد مل سکتی ہے۔اس سال محرم الحرام کی آمد سے قبل پاکستان علماء کونسل نے ایک بار پھر اس ضابطہ اخلاق پر ملک بھر کے علماء سے مشاورت کی ہے اور پورےملک کے اندر اس وقت مختلف مکاتب فکر کے درمیان پیدا ہونے والے مسائل کو باہمی اتفاق سے حل کرنے کی کوششیں بھی جاری و ساری ہیں اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ انشاء اللہ اس سال محرم الحرام میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان کشیدگی کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو گی اور اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو گی تو اس کو باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے حل کر لیا جائے گا۔ مندرجہ ذیل ضابطہ اخلاق پر آئندہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں بھی قانون سازی کیلئے مشاورت کی جائے گی:
1۔ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی ، قتل و غارت گری خلاف اسلام ہے اور تمام مکاتب فکر اور تمام مذاہب کی قیادت اس سے مکمل اعلان برأت کرتی ہے۔
2۔کوئی مقرر ، خطیب، ذاکر یا واعظ اپنی تقریر میں انبیاء علیہ السلام ، اہل بیت اطہار ؓ ، اصحاب رسول ؓ ، خلفائے راشدین ؓ ، ازواج مطہرات ؓ ، ائمہ اطہار اور امام مہدی ؑکی توہین نہ کرے اور ایسا کرنے والے کی کسی مسلک کے نمائندے سفارش نہیں کریں گے۔
3۔کسی بھی اسلامی فرقے کو کافر قرار نہ دیا جائے اور کسی بھی مسلم یا غیر مسلم کو ماورائے عدالت واجب القتل قرار نہ دیا جائے اور پاکستان کے آئین کے مطابق تمام مذاہب اور مسالک کے لوگ اپنی ذاتی اور مذہبی زندگی گزاریں۔
4۔اذان اور عربی کے خطبے کے علاوہ لائوڈ اسپیکر پر مکمل پابندی ہو اور اس کے علاوہ تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے لوگ اپنے اجتماعات کے لئے مقامی انتظامیہ سے اجازت لیں۔
5۔شر انگیز اور دل آزاری پر مبنی کتابوں ، پمفلٹوں ، تحریروں کی اشاعت ، تقسیم و ترسیل نہ ہو ، اشتعال انگیز اور نفرت آمیز مواد پر مبنی کیسٹوں اور انٹر نیٹ ویب سائٹوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے ۔ نفرت آمیز اور اشتعال انگیز نعروں سے مکمل اعراض کیا جائے اور ائمہ ، فقہ ، مجتہدین کا احترام کیا جائے اور ان کی توہین نہ کی جائے۔
6۔عوامی سطح پر مشترکہ اجتماعات منعقد کر کے ایک دوسرے سے یکجہتی کا اظہار کیا جائے ۔
7۔پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی رہتے ہیں ، لہٰذا شریعت اسلامیہ کی رو سے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں ، ان کے مقدسات اور ان کی جان و مال کا تحفظ بھی مسلمانوں اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے ، لہٰذا غیر مسلموں کی عبادت گاہوں ، ان کے مقدسات اور ان کے جان و مال کی توہین کرنے والوں سے بھی سختی کے ساتھ حکومت کو نمٹنا چاہئے۔
8۔حکومت قومی ایکشن پلان پر بلا تفریق مکمل عمل کرائے۔
9۔مجالس اور جلوسوں کے اوقات کی پابندی کی جائے اور جلوسوں کے راستوں اور مجالس کے مقامات کے تحفظ کے لئے حکومت اور مقامی ذمہ داران کے درمیان رابطوں کا مؤثر نظام بنایا جائے۔
10۔کسی بھی حادثہ کی صورت میں قومی مصالحتی کونسل کے اراکین فوری طور پر حادثے کے مقام پر پہنچیں اور عوام الناس کو ہر قسم کی اشتعال انگیزی اور نفرت انگیزی سے دور رکھا جائے۔
تازہ ترین