• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمعرات 15اکتوبر کو امریکہ کے صدر باراک حسین اوباما نے افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافہ اور ان کے قیام کی مدت 2017ء تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح امریکی صدر نے افغانستان کی خانہ جنگی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کرتے ہوئے افغانستان کے مصائب اور پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد 5500 امریکی فوجی 2016ء تک افغانستان میں موجود رہیں گے جو حکمرانوں کی سیکورٹی کے مسائل اور افغان فوج کی تربیت کریں گے۔ دس ہزار امریکی افغانستان کی حکومت کیلئے نفسیاتی تسکین کا باعث تو ہو سکتے ہیں لیکن عملاً ان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے اور انہیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بجائے ان کی معذوری کا سبب بن جائیں گے۔ اس وقت افغانستان کی اپنی افواج کی تعداد تقریباً پونے دو لاکھ ہے۔ ان میں سے کم از کم بیس ہزار فوجی ان امریکیوں فوجیوں کی حفاظت پر مامور ہو جائیں گے او ر تقریباً اتنے ہی ٹھیکیداروں کی طرف سے کرائے کے سپاہی ان کی حفاظت کیا کریں گے۔ ان کی موجودگی میں افغانستان اور وہاں کی حکومت کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟ سوائے اس کے کابل‘ جلال آباد اور قندھار میں افغان حکومت کی ’’رٹ‘‘ محسوس ہوتی رہے۔ باقی پچانوے فیصد افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہوگا یا کسی بھی حکومت کے بغیر رہے گا۔
امریکہ سے باہر امریکی فیصلوں میں تسلسل ہے نہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت‘ یہ لوگ بغیر ٹھوس منصوبہ بندی کے عجلت میں فیصلے کرتے ہیں‘ پھر ان فیصلوں کو واپس لینے میںبھی ذرا تاخیر نہیں کرتے۔ ان حالات میں امریکہ اور ان کی کٹھ پتلی حکومتوں کے منصوبوں کے بارآور اور نتیجہ خیز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب تک امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی اس وقت تک افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکلے گا نہ ہی خانہ جنگی میں کوئی وقفہ آئے گا بلکہ امریکہ کی موجودگی طالبان کو نئے ’’جنگجو‘‘ بھرتی کرنے میں سہولت کا باعث بنے گی۔ افغانی غیرملکی فوجوں کی موجودگی کو کسی صورت قبول نہیں کر سکتے اور ان کے خلاف جدوجہد کرنے والوں سے ہمدردی رکھتے اور ان کی مدد کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ کیا دس ہزار امریکی افغان سرزمین کو اشرف غنی او رعبداللہ عبداللہ کیلئے فتح کر سکیں گے؟
-7اکتوبر 2001ء میں ساٹھ ہزار امریکی فوجی ہزاروں جنگی طیاروں‘ ہیلی کاپٹرز‘ مسلسل نگرانی کرنے والے سیٹلائٹ کے ساتھ لاتعداد ٹینک، بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ ’’شمالی اتحاد‘‘ کے ہزاروں جنگجوئوں کی آڑ میں بلکہ انہیں ڈھال اور ہراول بنا کر افغانستان میں داخل ہوئے تھے‘ ساتھ ہی برطانوی اپنے لائو لشکر کے ساتھ آن شامل ہوئے۔ 2003ء تک دنیا کے اٹھارہ طاقتور ترین ممالک اپنے اپنے لشکروں کے ساتھ امریکہ کی مدد کو پہنچ گئے لیکن افغانستان میں جنگ کی بھٹی دہکتی رہی، طالبان کے امیر ملا عمر کا کھوج ملا نہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن ہاتھ آئے، امریکہ سمیت اٹھارہ بڑی طاقتیں ’’واحد سپر پاور‘‘‘ کیلئے افغانستان کو فتح نہ کر سکیں تو 2006ء تک دنیا بھر 46’’کاسہ لیس‘‘ حکومتیں امریکہ کے شانہ بشانہ طالبان کے خلاف جاری ’’یدھ‘‘ میں شامل ہو گئیں مگر چودہ سال کی کوششیں‘ ساری دنیا کی حمایت‘ بھاری بھرکم مگر تیز رفتار جنگی مشین اور جدید ترین وسائل کے ساتھ ’’تاریخ انسانی‘‘ کی سب سے مہنگی اور امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ نتیجہ پیدا نہ کر سکی، الٹا ساری دنیا کی افواج کی سبکی ہوئی، جدید ترین جنگی آلات پر سوال اٹھنے لگے‘ عالمی طاقتوں کا بھرم ٹوٹ گیا‘ پھر ایک ایک کر کے مددگار ہاتھ کھینچنے لگے اور اپنے اپنے فوجی دستوں کو لے کر واپس چل دیئے۔ پہلے فرانس کے عوام نے افغانستان میں مداخلت کے خلاف مداخلت کی‘ پھر اسپین میں جنگ نوازوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ بالآخر
منزل عشق پہ تنہا پہنچے کوئی تمنا ساتھ نہ تھی
تھک تھک کے اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا
دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد ’’نیٹو‘‘ سمیت 46 ملکوں کے فوجی دستے رخصت ہوئے۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکی قیادت میں لڑنے والی غیرملکی فوج کی زیادہ سے زیادہ تعداد 150000 (ڈیڑھ لاکھ)‘تقریباً دو لاکھ افغانی فوج جسے امریکہ‘ کینیڈا اور یورپی ممالک نے تربیت اور اسلحہ دے کر کھڑا کیا اس کے علاوہ ٹھیکیداروں کے ذریعے حاصل کردہ ’’کرائے کے قاتل‘‘ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں رہی ہوگی۔ افغانستان میں ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ اتنے ہی افراد پر مشتمل فوج کیلئے قیام و طعام اور رسل وسائل کی گنجائش موجود ہو سکتی ہے۔ اس سے زیادہ لوگوں کے لئے گنجائش ہی موجود نہیں تھی۔ طالبان جنگجوئوں کے پاس رہنے اور چھپنے کیلئے بھی کوئی جگہ موجود نہیں تھی‘ سوائے پتھروں کی اوٹ اور قدرتی کھوہ اور غاروں کے جہاںوہ چھپ کر رہ سکیں۔ نہ ٹینک‘ جنگی جہاز ‘ہیلی کاپٹر‘ نہ میزائل‘ خانہ بدوش ‘ خالی ہاتھ اور ننگے پائوں رہنے والی ملا عمر کی مختصر اور بے ترتیب فوج نے چودہ سال تک کامیابی سے مقابلہ کیا۔
بالآخر امریکیوں کو بھی رائے عامہ کے دبائو اور مالی نقصانات کے باعث بھاگ نکلنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ساری دنیا کی فوج افغانستان کے میدان جنگ میں اکٹھے ہو کر سایوں کا تعاقب کرتی رہی، نہ کوئی ملک فتح ہوا، نہ علاقہ آزاد کروایا ، نہ دشمن کو شکست ہوئی‘ نہ کوئی مقصد حاصل کیا جا سکا۔ تین کھرب ڈالر کے بھاری اخراجات، پچیس ہزار اتحادی اور افغان فوجیوں کی ہلاکت پچاس لاکھ لوگوں کی ہجرت، ایک لاکھ سے زیادہ شہریوں اور ان کی املاک کی بربادی جسے دوستانہ تباہی کا نام دیا گیا‘ امریکہ کی رو سیاہی کا سبب بنی۔ کیا اب دس ہزار امریکی فوج افغانستان کو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کیلئے فتح کر سکے گی؟ بدقسمت افغانی پینتیس برس سے عالمی طاقتوں کی بربریت کا شکار ہو کر ابھی تک زندہ ہیں اور مزاحمت کیلئے تیار بھی۔ جس ملک کو روس کی طاقت اور اتحادیوں کی فوجیں زیر نہیں کر سکیں، دس ہزار امریکی دستے اور اس کی حفاظت پر مامور افغان فوجی بھی انہیں شکست نہیں دے سکے۔ غیرملکی دستوں کی موجودگی افغانستان میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکاتی رہے اور اس کی تپش سے سارے ہمسایہ متاثر ہیں اور مزید بدامنی اور انتشار کے شکار رہیں گے۔
صدر باراک حسین اوباما کے نیم دلانہ فیصلے اور غیرواضح حکمت عملی افغانستان کی حکومت اور ہمسایہ ممالک کیلئے پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ افغانستان‘ پاکستان‘ چین‘ ایران‘ روس سمیت قریبی ہمسایہ نہیں چاہتے تھے کہ امریکہ اور نیٹو افواج عجلت میں افغانستان سے رخصت ہوں مگر امریکی صدر نے دسمبر 2014ء تک افغانستان سے انخلاء کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی مزید تیس ہزار فوجی دستے افغانستان روانہ کردیئے۔ اب انخلاء کا عمل مکمل ہونے کو آیا ہے تو ایک دفعہ پھر سے امریکی حکمت عملی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی جانب چل نکلی ہے۔
افغانستان میں بدامنی کا پہلا اثر پاکستان پر پڑتا ہے، اس کے بعد ایران، چین اور روس تک اس سے متاثر ہوتے ہیں۔افغانستان میں جاری خون ریزی وسعت اختیار کر کے پورے مشرق وسطیٰ کے امن کو بھی نگل چکی ہے، اس کی تپش سینٹرل ایشیا، جنوبی ایشیا سے مشرق بعید اور اب یورپ تک محسوس کی جانے لگی ہے، اس سے پہلے کہ دنیا ’’تیسری عالمی جنگ‘‘ کا شکار ہو جائے، امریکہ اور یورپ کو افغانستان اور مشرق وسطیٰ سے نکل جانا چاہئے۔ افغانوں اور عربوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے دیں، وہ جنگ کے بعد کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں یا بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نکالتے ہیں‘ یہ ان پر چھوڑ دیا جائے۔ مزید دس سال تک جنگ جاری رکھنے کی بجائے امریکہ کیلئے زیادہ آبرومندانہ راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے اور ان کے ساتھ معاہدہ کرے کہ اگر وہ افغانستان کی حکومت میں شامل ہوں یا قابض، بہرحال وہ افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے تو یہ امریکہ کیلئے زیادہ آبرومندانہ حل ہو سکتا ہے اور ہمسایہ ممالک کے امن اور سلامتی کا ذریعہ بھی۔
تازہ ترین