• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور سے لے کر فیصل آباد تک گزشتہ تین دنوں سے گردآلود دھند کی ایک موٹی چادر تنی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں موٹر وے کےبعض حصوں میں 10میٹر سے زیادہ دور تک دیکھنا ممکن نہیں رہا۔ فضائی آلودگی کی اسی بدترین صورتحال میں فیصل آباد اور حافظ آباد کے علاقوں میں ہونے والے حادثات میں اب تک 24 افراد جاں بحق اور 151زخمی ہوگئے۔ لاہور جو کسی زمانے میں باغوں کا شہر کہلاتا تھا آج کل کنکریٹ کے ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے جہاں ہر طرف پھیلے ہوئے گردوغبار، دھویں اور خطرناک گیسوں نے مل کر ایک ایسا ہالہ بنا لیا ہے جو اگر زیادہ دیر تک جاری رہا تو اس کے بچوں، بوڑھوں، خواتین اور خاص طور پر سانس کے مریضوں کے لئے بہت مضر اثرات کے حامل ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ گردآلود دھند یا اسموگ کی یہ صورتحال وسط ایشیائی ریاستوں میں آنے والی صحرائی طوفان اور بھارت میں جلائی جانے والی فصلوں کا نتیجہ ہے لیکن اس صورت حال کو خراب تر کرنے میں ہمارے ارباب اختیار کا اپنا بھی کافی حد تک دخل ہے جنہوں نے حالیہ چند مہینوں میں ہی دو ہزار سے زائد درختوں کو مختلف میگا پروجیکٹوں کے نام پر کاٹ کر رکھ دیا ہے اور تقریباً اتنے ہی مزید درختوں کی کٹائی کا پروگرام بھی بنا لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اسپتال سے نرسری اسٹاپ تک دونوں طرف تیرہ سو سے زائد درخت لگانے کا جو لائحہ عمل وضع کیا گیا تھا وہ آٹھ ماہ سے زائد التوا ہے جس کی وجہ سے پہلے درخت تو کٹ چکے ہیں لیکن اس سڑک کی توسیع ہوئی ہے نہ نئے درخت ہی لگائے گئے ہیں۔ جس سے کینال روڈ کے اس مصروف ترین حصے پر ہر وقت گرد وغبار کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ اس صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لئے صوبائی حکومت اور محکمہ ماحولیات کو پوری طرح چوکس ہونا چاہئے ورنہ اگر حالات یہی رہے تو خشک سردی بڑھنے سے کئی قسم کے امراض کے پھیلائو کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔

.
تازہ ترین