• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات روز بہ روز بگڑتے جارہے ہیں،بھارت کی کنٹرول لائن پر فائرنگ جاری ہے، جواباً پاکستان کو ردعمل دینا پڑتا ہے، پاکستان کے کئی شہری اس فائرنگ سے شہید اور زخمی ہوچکے ہیں، دوسری طرف کشمیر میں بھارت کا ظلم و ستم بڑھتا ہی جارہا ہے اور وہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کررہا ہے۔ نوجوان برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی میں نئی روح پھونک دی ہے جوکہ پھیلتی چلی جارہی ہے، خصوصاً نوجوانوں نے اِس تحریک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا، ہے۔ ایک کشمیری شاعر لیاقت جعفری نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے اور ان کی توجہ نوجوانوں کے جذبات کا احترام کرنے کی طرف دلائی ہے، اُن کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر جس کو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے روئے ارض پر جنت قرار دیا تھا کیونکہ یہاں خوبصورت جھیلیں، آبشار اور سرسبز وادیاں ہیں، مگر افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت یہ جنت نظیر وادی میں ظلم و ستم کا بہت بڑھ گیا ہے۔ ساری دُنیا کے اخبارات کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہونے اور حکومتی بربریت کی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نریندر مودی کی حکومت کشمیریوں کے مسائل حل کرتی جو بھارت میں کشمیر کے حل کیلئے سب سے محفوظ طریقہ تھا، اُن کا یہ خط سارے بھارت میں ایک وائرس کی طرح پھیل گیا ہے اور اس خط کی جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے فیس بک پر تائید کی ہے۔
اس طرح بھارت بربریت کی وجہ سے ہندو معاشرے کے انصاف پسند لوگ کچھ بے چین ضرور ہوئے ہیں ہیں مگر بھارتی وزیراعظم اسرائیل اور امریکہ کے زیراثر ہیں کہ وہ فلسطین کی طرح کشمیریوں کی تحریک کو مکمل طور پر دبا کر ہی دم لیں گے۔ فلسطین اور کشمیر میں بہت فرق ہے، جسکی وجہ وہ پاکستان کو سمجھتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھاتا ہے چنانچہ وہ پاکستان کو بھی مسلسل اشتعال دلا رہا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لے۔ بین الاقوامی حالات اگرچہ بھارت کے حق میں جارہے ہیں امریکہ اور اُسکے ہمنوا ممالک ارضی سیاست کی وجہ سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا وہ نوٹس نہیں لے رہے ہیں جو اُن کو لینا چاہئے تھا اور جس کے وہ چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف سازشیں کرنا اور اُسکو چین سے نہ بیٹھنے دینا کے بھارتی پالیسی کی اسلئے حمایت کررہے ہیں کہ وہ پاک چین تعلق توڑنا چاہتے ہیں۔ پاک چین تعلقات پاکستان کی بقاء اور پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے، اسلئے بھارت کشمیر میں ظلم و ستم کو بڑھاتے رہنا اور سرحدوں پر اشتعال انگیزی، اندرونی طور سے پاکستان میں مداخلت اور پاکستان میں دہشتگردی کرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ کلبھوشن یادو کے بعد پاکستان نے بھارتی سفارت کاروں کی تخریبی کارروائیوں میں ملوث کا نیٹ ورک کا پتہ لگایا ہے، جس میں بھارت کے سفارت خانے کے محکمہ اطلاعات کے افسر کی جگہ خفیہ ایجنسی کا کارندہ، محکمہ تجارت کے نمائندے کے لبادے میں ’’را‘‘ کا ایجنٹ بطور کمرشل قونصلر کام کررہا تھا، پاکستان نے آٹھ سفارت کاروں کی نشاندہی کی، اسی طرح پاکستان نے اپنے چھ افسران کو پاکستان واپس بلا لیا۔ یہ عمل کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعات کے بڑھ جانے اور اِن بھارتی افسران کا اِن واقعات میں منسلک ہونے کی وجہ سے اٹھایا گیا۔ یاد رہے کہ کوئٹہ میں اگست 2016ء میں وکلاء پر دہشتگرد حملہ ہوا تھا اور اکتوبر 2016ء میں زیرتربیت پولیس افسران اور اہلکاروں پر حملہ کیا گیا۔ پاکستان بلوچ نوجوانوں کو بطور ہلکار اور افسران کے ملازمتیں دینے اور اُن کو پاکستان حکومتی اداروں میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے کی کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس پالیسی کی رو سے بلوچ نوجوانوں اور دانشوروں کو فوج، پولیس، اداروں، پاکستان کے تمام محکمہ جات میں بھرتی کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ اُن کی تعلیم کی کمی کو دور کرنے کیلئے انہیں تیکنیکی تربیت دے کر افسر کے عہدوں پر فائز کیا جارہا ہے، سو دشمن نے بلوچستان کے دانشوروں اور پاکستان سے محبت کرنے والے وکلاء پر وار کرکے ایک بڑی تعداد شہید کردی، اس طرح پولیس میں مستقبل میں ذمہ داریاں سنبھالنے والوں کو وقتی طور پر بریک لگانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد پاکستان پر لازم ہوگیا ہے کہ وہ دشمن کے ایجنٹوں کو ملک سے نکالے۔ سو ایسا کر تو دیا ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ یہ وارننگ بھی جاری کردی گئی ہے کہ 15 دن میں اسلام آباد اور راولپنڈی میں دہشتگرد حملوں کا خطرہ ہے، جس کی بھارتی و افغان ایجنسیاں مل کر منصوبہ بنا رہی ہیں۔ اِس کے علاوہ داعش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ بھی بھارت بنائے بیٹھا ہے۔ اس کے داعش سے بہت قریبی تعلقات ہیں، اُن کے 22 شہری داعش میں شامل ہوچکے ہیں۔ بھارت کے اخبارات نے یہ خبریں شائع کی ہیں کہ داعش کو بھارت کی سات کمپنیاں ممنوع دھماکہ خیز مواد فراہم کررہی ہیں۔ یہ اسلئے بھی درست ہے کہ بھارت کے سلامتی امور کے مشیر اجیت ڈوول برملا یہ بات کہتے رہے ہیں کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر میں خلل ڈالنے کیلئے داعش کو استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داعش افغانستان میں قدم جما رہی ہے۔
بھارت کے دانشور یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ چین اور روس اسلئے بھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کررہے کیونکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو تجربہ ہے وہ داعش کے خلاف افغانستان میں استعمال کیا جاسکے۔ اُن کا خیال ہے کہ داعش کو امریکہ اور بھارت کی حمایت اور اسلحہ کی سپلائی کے باوجود عراق اور شام میں شکست کا سامنا ہے۔ امریکہ چین، پاکستان، ایران، روس اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کے خلاف داعش کو افغانستان میں جمع کرے گا۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ داعش امریکہ کی پیداوار ہے، جس کو اب امریکی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے ایک انٹرویو میں تسلیم کرلیا ہے کہ القاعدہ اور داعش دونوں ہی امریکہ کی پروردہ ہیں۔ اب یہ افسانہ نہیں رہا اور نہ ہی سازشی تھیوری بلکہ یہ بات حقیقت ہے، تاہم اس پر برصغیر کی ڈیڑھ ارب آبادی کو تشویش ہے کہ حالات یوں ہی رہے توبات ایٹمی جنگ پر جا کر منتج ہوگی، جس سے بڑی تباہی پھیلے گی۔ ایٹمی ہتھیار سے جو تباہی ہیروشیما اور ناگا ساکی میں ہوئی تھی، اُس کا مداوا آج بھی نہیں ہوسکا ہے اسکے باوجود بھارت میں یہ بات عام طور پر کی جارہی ہے کہ پاکستان کے ٹکڑے کردو، پاکستان کو ختم کردو، ایک ایسے ملک کے بارے میں یہ بات کہی جارہی ہے جو ایٹمی ہے اور جو اپنے دفاع کے معاملے میں کافی حساس ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ وہاں کا دانشمند طبقہ، شعراء کرام اور کمیونسٹ پارٹیاں اِس صورتحال پر توجہ دیں اور اپنے وزیراعظم کو پاکستان کے خلاف مہم جوئی سے روکیں۔ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی نے واضح طور پر کہا کہ مودی اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے پاکستان سے جنگ کرنا چاہتا ہے، یہ درست ہے مگر زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ دُنیا کے سمجھانے کے باوجود کہ ایٹمی طاقت کے طور طریقے اپنانے کو تیار نہیں ہے جس سے ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

.
تازہ ترین