• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان جیسے کثیر الجہتی سماج میں قومی مسائل کے ادارک اور ان کے حل کے لئے تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور مطابقت کے لئے ایسے ثمر آور ادارے کی ضرورت آغاز ہی سے محسوس کی جانے لگی تھی تا ہم مشرقی پاکستان کی علیحد گی میں پنہاں تعلیمی نظام کی ابتری کے کردار کی بناء پر یہ احساس بڑھ گیا ۔سقوط ڈھاکہ کی کوکھ سے یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ تعلیم ہی وہ بنیاد ہے جس پر صوبوں یا علاقوں کی ترقی کا انحصار ہے۔ 1973ء کے دستور سے پہلے تعلیم صوبائی معاملہ تھا تاہم دساتیر کی مشترکہ فہرست میں پالیسی و معیار کے حوالے سے موجود شقوں کی موجودگی بھی لازم سمجھی گئی۔ 1974ء میں جامعات کی کارکردگی کی نگرانی کے لئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قانون منظور ہوا تو وفاق پاکستان نے اعلیٰ تعلیم کو مربوط کرنے، تحقیق و تدریس کو بہتر کرنے اور اداروں کی کارگزاری کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے پالیسی سازی کا اختیار حاصل کر لیا۔ تا ہم بیسویں صدی کے آخری عشرے میں اعلیٰ تعلیم کے اداروںکی کارکردگی کے حوالے سے بحث زور پکڑ گئی اور یو جی سی کے حوالے سے تنقید میں شدت آگئی تو اس ادارے ،تنظیم کو صوبوں کے حوالے کرنے کی تجویز گردش کرنے لگی۔ اسی کے نتیجے میں1992ء میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے عالمی بنک کی رپورٹ میں اس تنظیم کو مستحکم کرنے کی تجویز آئی اور برطانیہ کی یوجی سی کے سابق سربراہ نے یو جی سی کی ضرورت کو ناگزیز قرار دیتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ اگر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا وجود نہ بھی ہوتا، پھر بھی اسے ایجاد کرنا پڑتا۔ ایسے ہی ماہرین کی تجاویز کے نتیجے میں 2002ء میں وزارت تعلیم کے زیر انتظام پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی کے لئے ماہرین کی کمیٹی قائم ہوئی جس نے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں اعلیٰ تعلیم کے معیار و ثمرات کو بہتر بنانے کے لئےایک مرکزی ادارے کی ضرورت کو کلیدی قرار دیا اور اس ادارے کو ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن ‘‘ کے نام سے تجویز کیا۔ ماہرین کی سفارش کو منظو ر کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے گیارہ ستمبر2002ء کو آرڈی نینس جاری کیا جس کے تحت’’کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم‘‘HECکا قیام عمل میں آ گیا اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا ایکٹ مجریہ1974ء منسوخ قرار پایا۔ لگ بھگ ایک عشرے سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے کمیشن نے جذبے، حوصلے، لگن سے تعلیم و تطہیر کا کام کیا جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہماری کارکردگی ہر حوالے سے بہتر ہوئی اور اسے عالمی سطح پر خوب پذیرائی بھی ملی، اس ضمن میں ڈاکٹر عطاء الرحمن کی خدمات اور کاوشیں خصوصی خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ اداروں کے زوال کا شکار قوم نے HECکی کارکردگی کو حوصلہ افزاء پایا۔ بلاشبہ اس سے سب کچھ عالمی معیار اور مقدارکا نہ ہو سکا تا ہم بہتری کاگراف ضرور بڑھنے لگا۔ ہمارے ہاں تحقیقی مطبوعات کی تعداد میں اضافہ کو دنیابھر میں دوسرا اہم ترین اضافہ قرار دیا گیا۔ نامساعد حالات کے باوجود پاکستان فی کس آبادی کے لحاظ سے ہندوستان سے زیادہ تحقیقی مقالے شائع کر رہا ہے۔ ہماری جامعات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل اساتذہ کی تعداد میں قابل رشک اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز کی انرولمنٹ میں خاطرخواہ اضافہ اعلیٰ تعلیم کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جامعات کو ملنے والی گرانٹس میں اضافے نے تعلیمی و تدریسی ماحول کو بہت بہتر بنایا ہے۔ اعداد وشمار سند فراہم کرتے ہیں کہ گزشتہ عشرے میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری نفع بخش ثابت ہوئی ہے۔ ان کامیابیوں پر سب کو مسرور ہونا چاہئے ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود مثبت اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کروائیں۔ انفراسٹر کچر کی بہتری کے لئے ہر ممکن کوشش کی اور اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لئے محققین کو ڈیجیٹل لائبریری تک رسائی ، اساتذہ کی تربیت ، ممتاز عالمی اداروں کے ساتھ اشتراک اور وظائف کی میرٹ پر تقسیم کے کلچر نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں کوئی انقلاب اگر پیدا نہیں بھی کیا تو اس کی سمت کا تعین ضرور کر دیا ہے۔ صرف ایک دہائی میں پچاس کے قریب نئی یونیورسٹیوں کا قیام کسی کارنامے سے کم نہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر زیر تعلیم طالب علموں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے ۔اس عشرے میں پانچ ہزار سے زیادہ لوگ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ورنہ قبل ازیں 55سالوں میں تین ہزار کے قریب ا سکالر پی ایچ ڈی تک رسائی حاصل کر سکے تھے۔ اس وقت بھی HECسے منظور شدہ165جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ ہر پی ایچ ڈی کے مقالے کے لئے بیرون ملک یونیورسٹی سے ایک بیرونی ممتحن لازمی قرار پایا ہے۔ہر سال نو ہزار سے زیادہ عالمی معیار کے تحقیقی مقالات کی اشاعت ہوئی ہے۔90کے قریب جامعات میں QECکوالٹی انہانسمنٹ سیل کام کر رہے ہیں اورQAAیعنی کیفیتی تیقن کی ایجنسی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ تعلیمی پسماندگی کے شکار علاقوں کے لئے خصوصی فنڈز جاری کئے گئے۔ تمام صوبوں کو یکساں مواقع فراہم کر کے قومی یکجہتی میں متحرک کردار ادا کیا گیا۔ انڈسٹری، اکیڈمیاں، لنکجز اور انٹرپینیوشپ جیسے تصورات کو متعارف کروایا گیا۔الغرض اس کمیشن نے گزشتہ عشرے میں ادارے کے کردار کی بہتر مثال قائم کی ہے۔ تمام تر ترقی اور کارناموں کے باوجود یہ ادارہ چند سال شدید دبائو اور تنقید و مباحثے کا بھی شکار رہا اور تنزلی کے خطرات کا سایہ بھی اس پر منڈلاتا رہا ، تاہم ڈاکٹر مختار احمد جیسی حوصلہ مند اور پاکیزگیٔ فکر و عمل کی حامل شخصیت کی قیادت نصیب ہونے کے بعد ایک بار پھر اس کی جلوہ افروزئیاں قومی اُفق پر جگمگانے لگی ہیں۔ علمی معیشت اور معلوماتی معاشرت میں برق رفتار تبدیلیوں سے جو قومی چیلنجز نمودار ہو رہے ہیں ڈاکٹر مختار احمد کی راہنمائی میں یہ ادارہ ان کا مقابلہ کرنے کی سعی میں شب و روز مصروفِ عمل ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کےلئے شفاف سرمایہ کاری، انفراسٹرکچر کی بہتری، کاروباری دنیا اور صنعتی شعبے سے مضبوط روابط کے لئے قابل عمل پالیسیوں پر گامزن ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی ثقافت کو فروغ دئیے بغیر جدیدیت سے آنکھیں نہیں ملائی جا سکتیں۔ اعلیٰ تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر دیگر اقوام نے ترقی کی ہے اور اپنی معیشتوں کو توانائی فراہم کی ہے۔ ہمیں بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے اس ادارے کی کارکردگی کو سراہنا ہو گا اوراعلیٰ تعلیم کے کمیشن کو مزید مؤثر بنانے کے لئے اس ادارے کے شانہ بشانہ چلنا چاہئے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پالیسی سازوں کو نئی حکمت عملیوں، فکری تنوع اور کیفیتی معیار میں اضافے، تعاون اور جدیدیت کو اپنی پالیسیوں کا محور بنانا ہو گا۔ ایسا لائحہ عمل جو قومی سطح پر خیالات کی سانجھ کا سبب بنے اور باہمی طور پر عمل پذیر بھی ہو۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن محض ایک ادارہ یا تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ قومی ارمانوں، تمنائوں اور مقاصد کو حقیقت کا رُوپ بخشنے والا مرکز فضیلت ہے۔ یہ ادارہ نہیں ادارہ ساز ادارہ ہے ہمیں قوی اُمید ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم کے مراکز و اداروں کو قومی تقاضوں اور ملّی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے علمی ثقافت پیدا کرنے کے قابل بنائے گا ۔ ایسے کثیر خرچ اداروں کا مقصد صرف تدریس کے عمل کو بڑھانا اور ڈگری کی تقسیم کو بڑھانا نہیں ہوتا بلکہ ایسے ادارے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے والی علمی ثقافت کے نصب العین کو فروغ دینے کے ضامن ہوتے ہیں۔ ایسے اداروں کی کارکردگی کو منطقی انداز میں پرکھنے اور ان کے ثمرات کو سراہنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ ثمر آور سفر جاری رہ سکے۔
تازہ ترین