• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج امریکہ میں الیکشن ہورہے ہیں، آج کے دن امریکی عوام اپنے نئے صدر کا انتخاب کریں گے۔ اس مرتبہ امریکہ میں الیکشن مہم زور و شور سے جاری رہی۔ خاص طور پر ٹرمپ کی الٹی سیدھی باتوں نے اس مہم کو چار چاند لگائے رکھے، ہیلری بھی اپنی ادائیں دکھاتی رہیں۔ مقبولیت کی دوڑ میں انیس بیس کا فرق لگ رہا ہے۔ ہیلری بیس ہے تو ٹرمپ انیس ہے مگر ٹرمپ اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ ٹرمپ کے پیچھے یہودی لابی ہے۔ امریکی معیشت اور میڈیا پر یہودی لابی کا قبضہ ہے اس لئے ٹرمپ الیکشن جیت سکتے ہیں چونکہ پیسہ اور میڈیا ٹرمپ کے لئے ایک بڑا کھیل، کھیل رہا ہے، پیسے سے یاد آیا کہ پاکستان کے ایک اہم سیاستدان نے ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم پر خوب پیسہ خرچ کیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کا پیسہ ضائع ہی نہ ہوجائے جس کا امکان بہت زیادہ ہے، اسی سیاستدان نے لندن میں ہونے والی دو خاص کانفرنسوں کے لئے بھی پیسہ خرچ کیا ہے۔ ان کانفرنسوں میں پاکستان سے متعلق کیا کچھ کہا گیا، اس کی تفصیلات سے آپ پہلے ہی آگاہ ہیں میرا ضمیر تو اجازت نہیں دیتا کہ میں پاکستان کے خلاف کی گئی باتوں کو یہاں نقل بھی کروں، میرا دل پاکستان کے ساتھ ہے، میری جان اس دھرتی کے لئے ہر وقت حاضر ہے، دنیا میں سب سے پیارا، میرا پیارا پاکستان ہے، چند سیاستدان پاکستان کے خلاف جتنی مرضی بکواس کرلیں یا کروالیں، انہیں ہر دو صورتوں میں شکست ہوگی ہار ان کا مقدر ہے، جیت پاکستان کی قسمت۔
اگر پاکستانی سیاستدان کے لگائے گئے پیسے کام آبھی گئے اور ہیلری مشکل سے جیت بھی گئی تو امریکی یہودی الیکشن کو متنازع بنادیں گے، ٹرمپ الیکشن نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے بلکہ امریکہ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوگا کہ لوگ انتخابی نتائج کے خلاف سڑکوں پر نظر آئیں گے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس تمام صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہے اسی لئے اس بات کا امکان ہے کہ ٹرمپ الیکشن میں ہیلری کو شکست سے دو چار کردے گا،اگر دولت اور میڈیا ہار گیا تو پھر ہیلری جیت سکتی ہے مگر اس حقیقت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے کہ امریکہ میں دولت اور میڈیا کو شکست دینا بڑا مشکل کام ہے۔ میری خواہش تھی کہ میں امریکی الیکشن کے موقع پر جاتا، اس مقصد کے لئے امریکیوں نے مجھے آئی ویزہ بھی دیا مگر مجھے پاکستان کی فکر زیادہ ہے، پاکستان میں اس وقت اہم ترین مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے، پوری قوم کی نگاہیں اس اہم ترین کیس پر لگی ہوئی ہیں۔
اپنا اسلام آباد بڑا خوبصورت شہر ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ اس شہر بے مثال کو چھوڑنے کے لئے دل راضی نہیں ہوتا۔ پاکستان کا یہ واحد شہر ہے جہاں سبزہ و گل کا بسیرا ہے، اسی شہر میں اہم ترین مقدمات چل رہے ہیں، ان مقدمات کے فیصلوں کی روشنی میں پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ گزشتہ روز یعنی پیر کو سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے حوالے سے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ وزیر اعظم کے بچوں کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے جوابات جمع کروائے ، یہ جواب ادھورے تھے اسی لئے عدالت نے سماعت 15نومبر یعنی اگلے منگل تک ملتوی کردی جو 7نومبر کو سماعت ہوئی ا س میں سپریم کورٹ کے ججوں نے کئی اداروں کے بارے میں کہا کہ ان پر بداعتمادی بڑھ رہی ہے، ریاستی ادارے خاص طور پر نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں، عدالت میں تو چیئرمین نیب کی چین روانگی پر بھی باتیں ہوئیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما کیس کو بڑا سادہ قرار دیا یعنی سیدھا سادہ کیس، جس میں صرف یہ بتانا ہے کہ لندن کی جائیدادیں کب لیں، کیسے لیں، پیسہ کہاں سے آیا، اگر پیسہ پاکستان سے گیا تو وہ کیسے گیا؟۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس حوالے سے شریف فیملی کے افراد کے بیانات میں تضاد ٹی وی اور اخبارات کی زینت بن چکا ہے، یہی تضادات اب مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ حکومتی وکیل تو مریم صفدر کی آف شور کمپنیوں سے بھی انکاری ہے۔ ان کا یہ انکار بھی عدالت کے سامنے آیا کہ مریم صفدر اپنے باپ کے زیر کفالت نہیں ہیں ۔ ان تمام باتوں کے ثبوت 15نومبر کو پیش ہوں گے۔ مخالف فریق کے ثبوت بھی زیر غور آئیں گے۔عمران خان اور جہانگیرترین کو بھی آف شور کمپنیوں کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کردئیے ہیں۔
ایک اور مقدمہ پشاور ہائی کورٹ میں چلا گیا ہے، خیبر پختونخوا اسمبلی کےا سپیکر اسد قیصر سی پیک کے حوالے سے مقدمہ لے کر گئے ہیں کہ ان کے صوبے کو حق نہیں ملا بلکہ سی پیک میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ قومی سلامتی کے حوالے سے شائع شدہ خبر کے معاملے پر ابھی کوئی تحقیق نہیں ہوئی مگر سینیٹر پرویز رشید کو وزارت سے ہٹایا گیا ، اب پنجاب کے وزیر رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ’’ثابت ہوگیا کہ پرویز رشید قصور وار نہیں ہیں.....‘‘ اس پر چودھری پرویز الٰہی نے بڑا جاندار تبصرہ کیا ہے کہ’’اگر پرویز رشید کا قصور نہیں تھا تو ہٹایا کیوں گیا؟....اس کیس میں لیت و لعل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے حالانکہ یہ عام بات نہیں ہے اور اس میں پتہ نہیں کون کون شامل ہے۔ سنا ہے کہ حکومت نے سرکاری خبر رساں اداروں کو منع کردیا ہے کہ وہ پرویز رشیدکی بطور سینیٹر خبروں کو نشر کرنے سے گریز کریں، جب کنٹینر لگے ہوئے تھے تو فوج کے ایک کرنل شہید ہوگئے تھے، شہید کرنل شاہد کی ایف آئی آر بھی درج ہونے کے لئے تیار ہے پتہ نہیں کس کے خلاف درج ہوتی ہے، حادثہ تو اٹک میں پیش آیا تھا۔
گزشتہ کچھ روز میں ریلوے کو پانچ چھ حادثوں سے دو چار ہونا پڑا ہے، پرائز بانڈز فیم وزیر صاحب پتہ نہیں کہاںہیں، آخری اطلاع تو یہ تھی کہ وہ اسٹے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، ان تمام معاملات پر مجھے عطاء الحق قاسمی کا شعر یاد آرہا ہے کہ؎
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہئے

.
تازہ ترین