• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کے مہذب دور میں انسان کی عزت نفس قوانین کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں تھانے انسانی تحفظ اور عزت وانصاف کی امان گاہیں ہیں۔جبکہ ہمارے خطے میں جبر، بربریت ، لاقانونیت، نا انصافی، دہشت اور وحشت کی آماجگاہیں ہیں۔یہاں شریف شہری تھانوں سے انصاف کی توقع نہیں رکھتا۔جبکہ صاحب حیثیت ، بااثراورطاقتورقیمت ادا کرکے انصاف اور قانون خرید سکتاہے۔ان حالات میں پولیس اور عوام کے درمیان نہ ختم ہونے والی نفرتیں اور دوریاں پیدا ہوچکی ہیں۔اس خلیج کی ذمہ دار صرف پولیس فورس ہے جس کے پیچھے حکومت کی طاقت موجود ہوتی ہے۔حکومتیں اپنی طاقت کا مظاہرہ پولیس کوبے پناہ جائز اور نا جائزاختیارات دے کر کرتی ہے اور پولیس وردی کی طاقت کا غلط استعمال کر تے ہوئے انصاف اور قانون کوپامال کرتی ہے۔نظام کی تباہی چند دنوں ، ہفتوں یا مہینوں میں نہیں ہوئی بلکہ یہ عمل صدیوں سے جاری ہے۔جب انگریزنے اس خطے کو تھانہ کلچر کی صورت میں جبر کا یہ نظام 1861کے پولیس رولز کے تحت دیااور اس نظام میں اس طرح جکڑ دیا کہ اس سے آزادی دکھائی نہیں دیتی۔بھارت اور بنگلہ دیش تو پولیس کمشنریٹ سسٹم کے تحت رفتہ رفتہ اس نظام سے چھٹکارا حاصل کر رہے ہیںلیکن پاکستان کی حکومتوں کو یہ ظلم کا نظام راس آگیا ہے۔ کیونکہ ہر دور میں یہ طبقہ راج کرتا رہا ہے جسے انگریز نے عوام کو کچلنے کی طاقت عطا کی اور اپنی خدمات اس دھرتی سے غداری کےصلے میںبے پناہ جاگیروں اور مال وزر سے نوازا تھا۔وہی طبقہ آج بھی انگریزکے اس ظالمانہ نظام کا محافظ ہے۔لاقانونیت ، ناانصافی اور جبر کے یہ محافظ سیاستدانوں، وڈیروں ، سرداروں اور جاگیر داروں کے روپ میں چھوٹے چھوٹے فرعونوں کی صورت اس عقیدے کے ساتھ اس دھرتی پر موجود رہتے ہیں کہ اگر معاشرے کے ہر طبقے کو مساوی انصاف میسر آجائے تو ان کی طاقت اور دبدبہ دم توڑ جائیں گے جو ان کی سیاست کی اساس ہے۔یہ فرعون اپنی عارضی اور ناپائیدار طاقت کے زور پر بے آواز عوام کو کچلتے رہتے ہیں۔حکومتیں ان کے اعمال پر خاموش رہتی ہیں کیونکہ یہ طبقہ قانون سے بالاتر ہے اور یہ ہر دور میں حکومتوں کےلیے ناگزیر ہیں۔دوسرے الفاظ میں یہ ہمیشہ حکومتوں کا حصہ رہتے ہیںاور قانون نافذ کرنے والے ان کے غلام۔عارضی طاقت کے حصول کے لیے یہ طبقہ پولیس اور انتظامیہ پر بھی اثر انداز رہتا ہے اور ان کی خواہش رہتی ہے کہ یہ دو اہم ادارے ان کے اشاروں پر کام کریں۔اس طاقتور طبقے کی بد اعمالیوں کی وجہ سے مختلف طبقوں میں طاقت کے ذریعے علاقائی بالادستی حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی اور یہ منفی رجحان سی ایس ایس کے ذریعے پولیس اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن حاصل کرنے والے نوجوانوں میں بھی سراعیت کر تا گیا اور ان دو اہم اداروں کے افسروں میں بھی بدعنوانی اور کرپشن پر ایمان رکھنے والا طبقہ پیدا ہوگیا۔جو سیاسی پشت پناہی میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ایماندار اور انصاف پسند افسروں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی۔ لیکن ان افسروں میں سچ اور انصاف کا ساتھ دینے کی ہمت کم نہیں ہوئی۔کچھ افسر جو حالات کے مطابق سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کی طاقت یا نیت نہیں رکھتے تھے وہ منظر سے اوجھل اور اچھے دنوں کے انتظار میں نظام سے وقتی طورپر کنارہ کش ہو گئے۔ایسا ہرگز نہیںہے کہ ایماندار افسروں نے کرپٹ نظام کے ہاتھ پر سہوا ًیا مجبوراًبیعت کر لی ہو۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عبادت سمجھ کر پولیس میں ملازمت کرنے والوں نے ہر سطح پر اپنی استطاعت کے مطابق اصلاح احوال کی کوششیں کیں۔یہ الگ کے وہ کہا ں تک کامیاب ہوئے لیکن اگر وہ ناکام ہوئے تو حکومت اور اس میں موجود کرپٹ عناصر ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ بنے۔
پولیس کی بحیثیت ادارہ تباہی کی بنیادی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ کسی دور میں پولیس کے بے لگام گھوڑے کو قانون کی لگام ڈالنے کے سنجیدہ کوشش کی گئی اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی گئی۔ملکی تاریخ میں پہلی بار جنرل مشرف کے دور میں پولیس آرڈر 2002کے ذریعے پولیس کمشنریٹ کے بنیادی تصور کے تحت پولیس اصلاحات کا اعلان کیا گیا۔جس کے نتیجے میں حکومتی مشینری چلانے والے وہ اہم اداروں دسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس گروپس کے درمیان سرد جنگ کاآغاز ہوگیا۔کیونکہ پولیس آرڈر 2002میں پولیس کو ضلعی انتظامیہ کے اثر اور کنڑول سے نکال کر آزاد حیثیت میں کام کرنے کےلیے پولیس کمشنریٹ کی طرز کا نظام متعارف کرایا گیا تھا۔جو ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ کے ساتھ ساتھ مقتدر سیاسی جماعتوں کےلیے قابل قبول نہیں تھا۔اس لیے پولیس آرڈر میں مرضی کی ترامیم کرکے اس کا اصل حلیہ بگاڑ دیا گیا۔یہاں تک کہ یہ قانون دوبارہ 1861کے پولیس آرڈر کی شکل اختیار کر گیا۔خیبر پختونخوا میں پولیس کی اصلاح کےلیے جو عملی کوششیں کی گئیںاس کے نتیجے میں کے پی کے پولیس ملک کی بہترین فورس بن کر ابھری ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ چاروں صوبوں میں خیبر پختونخوا پولیس کو یہ اعتماد سے امتیازی مقام حاصل ہے۔تھانہ کلچر کا اگر مکمل طورپر خاتمہ نہیں ہوا تو پولیس اور تھانوں میں واضح تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ شہری سکون اور امان محسوس کرتے ہیں۔عام شہری کوانصاف حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا نہیں ہوتا۔خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ ناصر خان درانی نے بحیثیت ادارہ پولیس کی قدر اور عزت قائم کرنے اور پولیس اور عوام کے درمیان خلیج کم کرنے کےلیے جو اقدامات اٹھائے وہ قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔انہیں اقدامات میں ایک اہم قدم کرپٹ اوربدعنوان پولیس اہلکاروں کامؤثراورشفاف احتساب کرناہے۔حال ہی میںمرتب کیےجانےوالےایک مسودہ قانون میں پولیس کے اندرونی اور بیرونی احتساب کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اس کے تحت بدعنوان اور بد کردار پولیس اہلکار کو بیک وقت پولیس اور عوام کے سامنے جوابدہ ہونا ہو گا۔اس میں شبہ نہیں کہ نظام میں موجود سیاسی اور کرپشن اور نا انصافی پر ایمان رکھنے والی قوتیں اس مسودہ قانون کی مخالفت کر کے اسے روکنے کی بھرپور کوششیں کریں گی۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت کے منشور میں انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔توقع یہی ہے کہ تحریک انصاف پولیس کے احتساب کے حوالے سے اس مسودہ قانون کو قانونی شکل دینے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
تازہ ترین