• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیتنے والا ایک، ہارے ہوئوں کا ہجوم‘ سار ے تو جیت نہیں سکتے‘ کھیل کا میدان‘ کشتی کا اکھاڑہ‘ دوڑ کا مقابلہ‘ کوئی ایک جیت جائے گا۔ پاکستان میں دو نومبر کا ’’یدھ‘‘ جیت لیا‘ جس نے جیت لیا‘ شکست کھائے حریف‘ ایک ٹولہ بن کر ہجوم کی شکل میں جیتنے والے کا ’’رجز ‘‘گانے کی بجائے اس کی ’’ہجو‘‘ کہتے ہیں‘ اپنی بے تال کی سر اور بھونڈی آواز میں‘ مگر شکست کھائے کی کون سنتا ہے۔ زمانہ اسی کا ہے‘ جس کے سینے پر جیت کا تمغہ سجا دیا گیا‘ عوام کا سمندر اس کے احترام میں ایستادہ‘ نعرہ ہائے تحسین کے ساتھ اس کے استقبال کو حاضر ہے‘ تعداد کتنی؟ گنتے جائو‘ دور افق کے پرے تک تمہاری نگاہیں تھک کے لوٹ آئیں گی مگر سروں کی فصل کا انت نہیں پا سکو گے‘ باتیں بنانے میں کیا‘ کھوکھلے لفظ‘ بے معنی فقرے‘ لکنت زدہ لفاظی میں شکست کی شرمندگی چھپائے ہوئے‘ اقبال نے کہا ؎
نہ کوئی رہا ہے‘ نہ کوئی رہے گا‘ یہی ہی ایک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اس کا مشتاق ہے زمانہ
ہاں وہ جو کوئی رہا ہے گزشتہ تین عشروں سے‘ اب نہیں رہے گا کہ محرم راز کی زبان سے کہا لفظ حرف آخر ہے۔ جس کی نمود قریب تر ہے‘ اس کیلئے ہجوم عاشقاں پریڈ گرائونڈ میں امڈ کے آیا۔ ہارنے والے ماضی کے اچھے دنوں میں باقی زندگی گزارا کریں اور حریف کے اچھے مستقبل پر نوحہ خوانی کریں۔ 28اکتوبر سے 2نومبر تک پانچ دن‘ 35 سالہ اقتدار اوراس اقتدار کے خوشہ چینوں کی ساری زندگی پر چھا گئے‘ جنہیں عشروں کی بادشاہی میں گرم ہوا کا جھونکا تک چھو کے نہیں گیا‘ جرنیل لائے‘ جرنیلوں نے نکالا وہ تو گھر کی بات تھی‘ گھر میں رہی‘ بالکل ذاتی اور خانگی۔ بےنظیر بے چاری کمزور حریف‘ پھر بھی اتنے بے بسا ط تھے کہ اس کے مقابل بساط بچھانے کو پوری ریاست اور حکومت کے سب ادارے مل ملا کر بھی اس مظلوم عورت کو ڈھیر نہ کر سکے۔ جب تک کہ اس کے اپنے گھر میں نقب نہ لگائی۔ وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں کہ؎
میں باج بھراواں ماریا‘ میری ننگی ہوگئی کنڈ
بن باپ اور بغیر بھائیوں کے بہن بے موت ماری گئی اور کوئی بھٹو وارث نہ رہا تو رہزنوں نے بھٹو کا لاحقہ لگاکے وراثت پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ پھر اقبال یاد آئے ’’شیر اور خچر کے مکالمے میں‘‘ شیر خچر سے ؎
ساکنان دشت و صحرا میں ہے تو سب سے الگ
کون ہے تیرے اب وجد کس قبیلے سے ہے تو
خچر کہتا ہے ؎
میرے ماموں کو نہیں پہچانتے شاید حضور
وہ صبا رفتار شاہی اصطبل کی آبرو
سیاست کے خچروں کو تعارف کیلئے اصل گھوڑے کی تلاش رہتی ہے‘ سو ہے‘ اب مغل اعظم کی شاہی سواری ان راستوں پر ہے ‘جو یک طرفہ ہوتے ہیں‘ جاتے تو ہیں مگر آتے نہیں۔ بونوں کے دیس میں گولیو ر کا سفر جاری ہے اور بالشتیوں کے لیڈر سارے کے سارے اس کی ٹانگوں سے چمٹ گئے کہ شاید اسے گرا سکیں مگر وہ ان سے گرتا نہیں‘ ہاں تھک ہار کے سستانے بیٹھ جائے تو بھی ان سے اونچا دکھائی دے گا۔ کپتان کے اسلام آباد ’’در آنے‘‘ کی وحشت اثر خبر نے اوسان خطا کئے کہ اپنا سب سے زیادہ اپنا ‘بیگانہ بھینٹ چڑھانا پڑا‘ جو کسی بھلے وقت کیلئے بچا رکھا تھا۔ بڑے خطرے سے بچنے کیلئے چھوٹے خطرناک کی بات مان لی جائے‘ ایسی بات جس کو بعد میں بدلا جا سکے‘آخر استعفیٰ کی واپسی اور حلف کے دہرانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ دانش مند وزیر نے کیا بات کہی‘ گہرے سمندر میں ڈوبنے سے بہتر ہے کہ شیطان سے سنگت کر لی جائے‘ بعد میں اس کیلئے ’’لاحول ‘‘ ہی کافی ہے، مگر اس کا کیا کریں‘ جو ’’وحشی‘‘ کے نیزے کی طرح سیدھا‘ مضبوط اور جس کی ’’انی‘‘ ہلاکت خیز ہے کہ اب کذاب ’’مسلیمائوں‘‘ کے سینے میں اترنے کیلئے بے چین اور تیار۔
حمید گل‘ جنرل حمید گل‘ پاکستان بھر میں انہیں کون نہیں جانتا اور پاکستان کے باہر بھی‘ دوست اس سے محبت رکھتے اور پاکستان کے دشمن ان سے لرزاں رہتے۔ اخترعبدالرحمٰن اور حمید گل کے عہد میں ایک چھوٹے ملک کی‘ چھوٹی سی خفیہ ایجنسی ‘ دنیا بھر کے بڑے بڑوں کو پچھاڑ کر دنیا کی نمبر ایک خفیہ ایجنسی کہلائی اور آج تک مانی جاتی ہے۔ وہی حمید گل‘ شاید اقبال نے انہی کے بارے میں کہا ہو کہ ؎
ہو حلقہ یاراںتو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جنرل انڈیا سے خفیہ رابطوںکی وجہ سے بے نظیر کو پسند نہ کرتے تھے‘ انہیں شکست دینے کیلئے ساری جماعتوں کو اکٹھا کر کے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا‘ انتخاب کے دوران ہی غلام مصطفیٰ جتوئی اور محمد خاں جونیجو کی بجائے ان کی نظر پنجاب کے نوجوان پر تھی‘ شاید صدر پاکستان کو بھی قائل کیا۔ انتخاب جیت لئے گئے تو حمید گل سے عرض کیا‘ جونیجو حق دار ہے‘ پارٹی کے صدر بھی‘ مگر وہ پرجوش تھے‘ اپنے معنوی شاگرد کیلئے‘ بولے! نہیں اب پاکستان کی قسمت بنے گی‘ مجوزہ نوجوان کورا کاغذ ہے‘ بالکل نیا اور سادہ‘ اس پر بالکل نیا لکھیں گے‘ جو چاہیں ‘ بالکل نیا ‘اچھوتا اور پاکستان کو واقعی پاکستان بنانے والا۔ حمید گل کو پہلا جھٹکا تب لگا جب وزارت عظمیٰ کا حلف دلانے کے بعد‘ مقتدر بیٹوں سمیت ’’خاندان کے ایک بڑے ‘‘ کے دسترخواں حاضری ہوئی تو پرجوش جنرل نے کہا ’’آپ کے خاندان کو اللہ نے نواز رکھا ہے‘ اس کا دیا بہت ہے ‘اپنے کاروبار کو ’’فریز‘‘ کریں‘ بس یہیں تک جب کہ آپ کے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر ہے تو قوم کی سوچئے‘ پاکستان کی تعمیر کیجئے‘ اس کے دکھ بانٹئے اور ملک کی خوشحالی کیلئے اپنی اعلیٰ استعداد اور صلاحیت خرچ کیجئے‘ آپ کیلئے یہ بہترین ترجیح ہے‘ تو ’’خاندان کے ایک بڑے ‘‘ نے پرجوش حمید گل کو یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ ’’ہم کاروبار کیوں ’’فریز‘‘ کریں، ہم نے اس دن کا برسوں انتظار کیا‘ اقتدار کے سائے میں ہی کاروبار کا مزہ ہے‘ حمید گل حیران اور دل شکستہ واپس آئے۔
سادہ کاغذ‘ بالکل سفید اور کورا‘ اتنا بھی سادا اور کورا نہیں تھا‘ نہ ہی اجلا ‘ ہمارا خوش عقیدہ جرنیل اور صدیوں کا تجربہ رکھنے والے غلام اسحٰق جسے بالکل کورا خیال کرتے تھے‘ جس پر اپنے ہاتھوں پاکستان کی ترقی‘ خوشحالی کا پروگرام تحریر کرنا چاہتے تھے وہ یہ نہ جان سکے کہ سادہ نظر آنے والا’’صفحہ‘‘ کورا نہیں تھا‘ اس پر کتنی ہی دفعہ بہت کچھ لکھا جا چکا تھا۔ پہلی تحریر تو اس کی اپنی تھی ‘ ٹیڑھی میڑھی‘ مبہم اور بے ربط اور پھر اپنے بڑوں کی طرف سے لکھی خواہشیں اور ہدایات‘ جنرل جیلانی کے مشورے ‘ ضیاء الحق کے احکامات‘ یہ سب حمید گل اور غلام اسحق خان کی نظر سے اوجھل کیوں رہے؟ وہ ایسے بے بصر تو نہ تھے مگر یہ جاننے میں ناکام رہے کہ اس کاغذ پر سارے احکام روشنائی کی بجائے پیاز کے پانی سے لکھے گئے تھے‘ پیاز کا پانی جو دوسروں کی آنکھیں دھند لا دیتا ہے مگر کاغذ کی تحریر خشک ہونے پر نظر نہیں آتی‘ اسے نمایاں کرنے کیلئے کاغذ کو تھوڑی حرارت دینا پڑتی ہے۔ پھر جنرل آصف کے انتقال کے بعد جب کورے کاغذ کو ہلکی آنچ پہنچی تو ساری خفیہ تحریریں اس کے چہرے پر نمایاں ہو گئیں ؎
ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ




.
تازہ ترین