• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یقیناً ہر شخص کا مستقبل اپنے ملک سے جڑا ہوتا ہے ، ملک کی ترقی داراصل انفرادی تر قی بھی ہوتی ہے اور مجموعی عوامی فائدہ بھی ہوتا ہے، اس لئے ملک کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ یا تبدیلی عوام کی دلچسپی کا باعث ہوتا ہے، ان دنوں پاناما لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت چل رہی ہے، جہاں ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے صحافی سماعت کے دوران پل پل کی خبریں اور فقرے اپنے موبائل کے ذریعے اپنے اپنے چینلز کو بھیجتے ہیں وہاں پر عوام بھی ان فوری خبروں کو براہ ِراست دیکھتے ہیں اور پھر اس پر تبصرے کرنا شروع کردیتے ہیں اور گھنٹوں بحث و مباحثہ اور تبصرے ہوتے ہیں، میں کوئی ماہر قانون نہیں ہوں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب کوئی معاملہ یا کیس عدالت میں زیر سماعت ہوتا ہے تو پھر ا س پر تبصرے یا تجزیئے نہیں کئے جاتے بلکہ یہ کہہ کر بحث کو ختم کردیا جاتا ہے کہ کیونکہ معاملہ زیرسماعت ہے اس لئے اس پر تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں، لیکن ہم سب یہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف عدالت کی سماعت ختم ہوتی ہے تو دوسری طرف سماعت میں موجود سیاسی رہنما بلکہ قانون دان بھی باہر آکر باقاعدہ تبصرے اور تجزیئے کرنا شروع کردیتے ہیں، بلکہ فریقین یہ تاثر دیتے ہیں کہ آج جو کیا گیا داراصل وہ ان کے مؤقف کی تائید ہے اور اب تو فیصلہ ہی ہوگیا جبکہ ایک فریق کہتا ہے کہ جھوٹ بولنے والوں کا جھوٹ پکڑا گیا ہے اور یوں عوام جو پہلے ہی تبصروں ، تجزیوں اور بحث مباحثوں میں غرق ہوتی ہے وہ اپنی اپنی سیاسی پارٹی کے رہنمائوں کے مؤقف سننے کے بعد مزید تیز ہوجاتے ہیں اور یوں بحث و مباحثے اور تجزیوں کا یہ سلسلہ رات گئے تک ٹی وی اسکرینوں پر جاری رہتا ہے اور دوسرے روز دفاتر میں ان پر پھر تبصرے ہوتے رہتے ہیں، گزشتہ روز عدالت نے فریقین کو عدالت کے احاطہ میں میڈیا کے سامنے بیان بازی سے روک دیایا اشارتاً یہ کہہ دیا کہ یہ درست عمل نہیں ہے جس کے بعد بیانات اور نکتہ نظر کا اکھاڑا سپریم کورٹ کے باہر لگایاگیا، جبکہ سرکار نے سرکاری پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی ) میں اپنا مؤقف پیش کیا، چلیں جہا ں زیر سماعت کیس پر بحث مباحثے تبصرے اور تجزیئے جاری رکھ کر جس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے وہاں یہ بات بہت حوصلہ افزاء ہے کہ عدالت میں زیر سماعت کیس سے ایک ایسا فیصلہ ہونے جارہاہے جس نے پورے ملک کو ا پنی لپیٹ میںلے رکھا ہے اور قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ حقیقت کیا ہے ، کیا واقعی کسی نے چوری کی ہے؟، کیا واقعی کسی نے اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے ؟ایک ایسا ملک جس کے عوام بیچارے دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اس کے حکمرانوں نے اربوں روپے کسی بھی طریقے سے ملک سے باہر منتقل کرکے ناجائز اثاثے بنائے۔کیا واقعی حکمران جو ساری دنیا کے لوگوں کو اپنے ملک میں انویسٹمنٹ کرنے کی رغبت دلاتے ہیں اور خود اپنی رقم جو نہ صرف ناجائز طریقوں سے کمائی ہے بلکہ وہ رقم اپنے ہی ملک میں رکھنے کی بجائے اغیار میں انوسٹ کرکے ایک ایسا ظلم کمایا ہے جس کی سزا ضرور ملنی چاہیے یا اس کیس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بعض سیاست دان یا سیاسی پارٹیاں اپنی سیاسی مخالفت کی وجہ سے ایک دوسرے سیاست دان پر ایک ایسا الزام لگا رہے ہیں جو بے بنیاد ہے اورنہ صرف اس سیاست دان پر بلکہ ان کے اہل خانہ پر بھی الزام تراشی کررہے ہیں اور بطور عوام ہم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا کہ ہم اپنی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہوکر اپنے ملک کے اچھے مستقبل کیلئے ان فیصلوں کو قبول کریں اور اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں یا سیاسی لیڈروں کی طرف سے مس گائیڈ کرنے میں نہ آئیں اور جو عدالت فیصلہ کرکے اس کو تسلیم کریں۔ اورسیاسی لیڈر بھی جو بار بار یہ کہہ چکے ہیںکہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ اسے تسلیم کرینگے، اس لئے عدالت فیصلہ دینے سے پہلے فریقین کو بھی پابند کریں کہ وہ فیصلے کے بعد اور اس کے خلاف کوئی ہنگامہ یا احتجاج نہیں کرینگے، اس سماعت کے دوران عدالت کا سب سے اچھا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اس کو غیر ضروری طوالت کا شکار کرنے کی بجائے اس کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچائیں گے نہیں تو ہم نے یہ دیکھا ہے کہ کیس کو کھینچتے کھینچتے اتنا طویل کردیا گیا کہ پھر کسی حیلے بہا نے سے کوئی فیصلہ سنائے بغیر اس کو سردخانے میں ڈال دیا گیا، لیکن یہاں یہ یقین ہوچلا ہے کہ اس کیس کو حتمی نتیجے تک پہنچایا جائے گابلکہ میرٹ پر ہوگا اور نہ صرف اس عوام بلکہ آنے والی نسلوں پر ایک احسان ہوگا اور ملک کو درست راہ پر متعین کیا جائے گا۔اللہ کرے کہ دودھ کا دودھ اور پا نی کا پا نی نظر آئے۔پوری قو م کو اس کا ا نتظا ر ہے۔
آئیں ہم محض بحث و مباحث کی بجائے دعا بھی کریں اور اداروں کے استحکام کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔



.
تازہ ترین