• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔محتاط اندازے کے مطابق 12لاکھ سے زائد لوگ براہ راست عوام سے منتخب ہوکر آتے ہیں۔چونکہ امریکہ میں صدارتی نظام حکومت ہے ،اس لئے امریکی صدارت پر براجمان ہونے کے لئے بھی تمام ریاستوں کے عوام ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے صدارتی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں۔ پوری انتخابی مہم میں متنازع رہنے والے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہوئے ہیں۔امریکی صدر اوبامانے آخری چند دن میں ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کے لئے بھرپور انتخابی مہم چلائی مگر گوروں کی اکثریت نے ٹرمپ کی سوچ کو تقویت دی۔ٹرمپ کی جیت کو پاکستان کے2002کے انتخابات میں ایم ایم اے کی جیت سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے۔جیسے کابل میں امریکی مظالم کے بعد پورے پاکستان میںامریکہ سے نفرت کی ہو ا چل پڑی اور متحدہ مجلس عمل نے اسے خوب استعمال کرکے فتح حاصل کرلی۔آج امریکہ میں ٹرمپ نے بھی مسلمانوںسے نفرت، انتہاپسندی، مہاجرین کا گوروں کا حق مارنااور امریکیوں کے معاشی مفادات کو ہوا دے کر فتح حاصل کی ہے ۔دنیا بھر میں ٹرمپ کی جیت کو حیرانی سے دیکھا جارہا ہے مگر امریکی عوام نے ٹرمپ کے خلاف تمام تر منفی مہم کو مسترد کردیا ہے۔ٹرمپ کی جیت میں گزشتہ سال ہونے والے سینیٹ اور کانگریس کے انتخابات کا بھی اہم کردار ہے ۔جس میں حکمران جماعت ڈیموکریٹ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ری پبلکن بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔آج ایک بار پھر امریکہ میں ری پبلکن جماعت کا صدر ہوگا۔مگر حالیہ امریکی صدارتی انتخاب میں ہم سب کے لئے سبق ہے کہ میڈیا نے کس طرح ٹرمپ کی ذات کے منفی پہلوؤں پر کھل کر تنقید کی،الیکشن سے ایک روز قبل ہیلری کےای میلز معاملے سے بری ہونے کی خبر بطور لیڈاسٹوری تمام اخبارات میں چھپی مگر کسی نے میڈیا پر ایجنڈا سیٹنگ یا دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔
ٹرمپ کی جیت میں دو عوامل کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔امریکہ میں اس وقت گوروں کی اکثریت مہاجرین سے خاصی تنگ ہے۔امریکی کمپنیوں میں دیگر قوموں کے افراد کا اہم عہدوں پر براجمان ہونا گوروں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے۔گوگل انٹرنیٹ سرچ انجن کی بات ہو یا پھرمعروف موبائل کمپنی ایپل۔ہر جگہ پر امریکی نہیں بلکہ دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والے اہم عہدوں پر کام کررہے ہیں۔اس ساری صورتحال میں بطور ملک اور قوم تو امریکہ کو فائدہ ہورہا ہے مگر بطور فرد نقصان ہورہا ہے۔اس لئے گورا مہاجرین کے خلاف ہے۔جب ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے immigrantsکے خلاف آواز بلند کی تو امریکی طبقے کی اکثریت نے ٹرمپ کی حمایت کی۔کیونکہ امریکی عوام کی اکثریت کو احساس ہوا کہ ہمارے معاشی مفادات کا تحفظ ٹرمپ کرے گا۔جب کہ ٹرمپ کی جیت کا ایک پہلو سیاسی بھی ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی نظریات کا مشاہدہ کیا جائے تو وہ جمہوریت کے لئے کوئی خاص محبت نہیں رکھتے ،بلکہ ان کے لئے ان کا مفاد سب سے اہم ہے۔امریکی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں تو معلو م ہوتا ہے کہ امریکہ میں جب بھی ری پبلکن اقتدار میں آتے ہیں تو دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کا بوریا بستر جلد ہی گول کردیا جاتا ہے۔جب کہ اس کے برعکس ڈیموکریٹ جمہوریت کے حامی ہیں اور دنیا بھر میں جمہوری حکومتو ں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ،صرف پاکستان کو ہی لے لیں۔ 1976میں جمی کارٹر امریکہ کے صدر تھے اوران کا تعلق ڈیموکریٹ سے تھا۔انہوں نے آتے ہی پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔مگر پھر ری پبلکن سے تعلق رکھنے والے رونلڈ ریگن امریکہ کے صدر بنے اور ضیاالحق کے اقتدار کو تقویت دی گئی۔رونلڈ ریگن کے بعد آنے والے سینئر بش کا تعلق بھی ری پبلکن سے تھا اور انہوں نے بھی اپنی پارٹی کی سوچ کو پروان چڑھایا۔ رونلڈ ریگن کے بعد ہیلری کلنٹن کے شوہر بل کلنٹن ڈیموکریٹ کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔کلنٹن کے 90کے ادوار میں پاکستان میں جمہوریت رہی۔محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے درمیان آنکھ مچولی چلتی رہی مگر کسی آمر کو مداخلت کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔پھر بل کلنٹن کے آخری ادوار میں وزیراعظم نوازشریف کو رخصت کردیا گیا اور ملک میں ایک بار پھر مارشل لا نافذ ہوگیا ۔مگر آنے والے امریکی انتخابات میں ری پبلکن کامیاب ہوئی اور جارج بش جونیئر نے پاکستان میں آمریت کو فروغ دیا۔بش کے پورے ادوار میں آمریت چلتی رہی آخری دنوں میں پرویز مشرف کو رخصت کردیا گیا اور پاکستان میںپھر جمہوری حکومت قائم ہوگئی۔جمہوریت آنے کے کچھ ماہ بعد امریکہ میں پھر ڈیموکریٹ آگئے اور باراک اوباما امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔باراک اوباما کے پورے دور کے دوران پاکستان میں جمہوریت چلتی رہی۔سول،عسکری حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ضرور ہوئے مگر کسی نے بھی براہ راست مداخلت کرکے سویلین حکومت کو رخصت کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔بالا حقائق کا جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب اور پاکستان میں جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔جب بھی پینٹا گون نے پاکستان میں کوئی تبدیلی کرنا ہوتی ہے تو اس کی مناسبت سے امریکی صدر سامنے آجاتا ہے۔ڈیموکریٹ سے آمریت کی حمایت کروانا مشکل ہوتا ہے ،اس لئے ری پبلکن کو ترجیح دی جاتی ہے۔آج امریکہ میں ری پبلکن بر سر اقتدار آچکے ہیں۔ ری پبلکنز کے لئے ذاتی مفادات کا تحفظ سب سے اہم ہوتا ہے۔ ماضی کا تقابلی جائزہ لینے سے واضح ہوتاہے کہ ری پبلکن جمہوری ممالک میں ایسی حکومت کے حق میں ہوتے ہیں جو ان کے اشارے پر چل سکے۔
جمہوری حکومت سے بات کرنا ری پبلکن کے لئے مشکل ہوتا ہے۔اس لئے ان کی ترجیح ہوتی ہے کہ کسی ایک بااختیار ترین شخص سے بات کی جائے اور اپنے مفادات کا تحفظ کروایا جائے اور جمہوریت میں کبھی بھی کوئی ایک شخص مطلق العنان نہیں ہوتا ۔اس لئے ری پبلکن آمریت کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔آج صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ترکی،بنگلادیش اور مشرق وسطی میں بھی امریکی حکمت عملی میں تبدیلی آنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔
ٹرمپ اگر اپنی سوچ کو موثر طریقے سے ابھارنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کانگریس اور سینیٹ کے ممبران کی اکثریت بھی ان کے ساتھ مل جاتی ہے۔جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں تو پھر کوئی بڑی بات نہیںہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں امریکی جمہوری حکومتوں کو خدا حافظ کہہ دیں۔مگر ضروری نہیں ہے کہ ایسا ہی ہو۔اس بار ری پبلکن کو لانے کے حوالے سے پینٹا گون کی پالیسی مختلف بھی ہوسکتی ہے مگر آج دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں کو محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔وطن عزیز میں توسیع کے معاملات پھر زندہ ہوچکے ہیں اور شاید ری پبلکن کی فتح یہ راہ ہموار کرنے میں مزید اہم کردار ادا کرے مگر ایک بات طے ہے کہ جیسے ترکی میں بغاوت کی ناکامی کے بعد دنیا بھر کی جمہوری فورسز مضبوط ہوئی تھیں اور تمام جمہوری ممالک میں جشن کا سماں تھا۔اسی طرح امریکہ میں آج کی ری پبلکن جیت پر غیر جمہوری فورسز بلا شبہ خوش ہونگی۔


.
تازہ ترین