• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچپن میں بڑوں سے بہت سی باتیں سنتے تھے جو غلط ثابت ہوئیں۔ مثال کے طور پر بزرگ بتایا کرتے تھے کہ جب کسی انسان کو ناحق قتل کیا جاتا ہے تو سرخ آندھی آتی ہے۔ چاند کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس میں ایک بڑھیا بیٹھی چرخہ چلا رہی ہے۔ نحوست کے بارے میں تو بہت سی نصیحتیں یاد ہیں جو بچپن سے ہی دماغ کے کسی کونے میں چپکا دی گئی تھیں مثلاً جوتی یا چارپائی الٹی رکھنا نحوست ہے۔ کالی بلی کا راستہ کاٹ دینا بدشگونی کی علامت ہوتا ہے۔ گھر کی چھت پر کوا بولے تو مہمان آتے ہیں، اگر چھینکیں آ رہی ہوں تو اس کا مطلب ہے کوئی آپ کو یاد کر رہا ہے، اگر ہاتھ سے نوالہ گر جائے تو بھی کسی مہمان کی آمد متوقع ہوتی ہے، بائیں ہاتھ میں خارش ہو تو پیسے آتے ہیں اور اگر دائیں ہاتھ میں خارش ہو تو پیسے جاتے ہیں۔ کوئی سو رہا ہو تو اس کے اوپر سے نہیں گزرتے، قد چھوٹا ہوتا ہے۔ بچے خوشبو نہیں لگاتے ورنہ جن بھوت چمٹ جاتے ہیں۔ جھوٹ بولنے سے زبان کالی ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی بیشمار باتیں ہیں جنہیں اب یاد کر کے ہنسی آتی ہے مگر بچپن کی ان باتوں میں ایک بات ایسی تھی جس کی اثر پذیری بڑے ہونے کے بعد بھی قائم رہی کہ انگریز بہت دانا اور عقل مند ہوتے ہیں۔ ایک لطیفہ نما حکایت بھی اس تاثر سے منسوب تھی کہ انگریز سو سال پہلے ہی یہ اِدراک کر لیتا ہے کہ اس کے سر پر جوتا پڑے گا لہٰذا وہ اس حملے سے بچنے کی تدبیر کر لیتا ہے۔ مسلمان تب بیدار ہوتا ہے جب جوتا اس کے سر پر مار دیا جاتا ہے اور سکھ اتنے سادہ ہیں کہ وہ سو سال بعد سوچتے ہیں کہ ان کے سر پر کسی نے جوتا مارا تھا۔ سکھوں کے بارے میں تو یہ تاثر غلط ثابت ہوا مگر 23جون 2016ء سے پہلے یہ بات مسلمانوں اور انگریزوں پر ضرور صادق آتی تھی اور مجھے یقین تھا کہ انگریز واقعی بہت سیانے اور عقلمند ہوتے ہیں۔ لیکن رواں سال 23جون کو یہ یقین پہلی بار متزلزل ہوا جبکہ9نومبر 2016ء کو معلوم ہوا کہ یہ بات بھی من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔ یوں بچپن کی سب باتوں پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ 23جون اور 9نومبر کو آخر ایسا کیا ہوا؟ اس پر بعد میں بات کریں گے پہلے میں آپ کو لارڈ نذیر کی بات سناتا ہوں جس کا اس موضوع سے بہت قریبی تعلق ہے۔
چند روز قبل لاہور کے ایک پنج تارہ ہوٹل میں ’’المصطفیٰ ٹرسٹ یو کے‘‘ کے زیر اہتمام تقریب تھی۔ یہ ایک فلاحی ادارہ ہے جو بینائی سے محروم افراد کے لئے کام کرتا ہے۔ اس تقریب میں لارڈ نذیر احمد نے اپنی سیاسی بصیرت کی بنیاد پر بتایا کہ برطانیہ یورپی یونین سے کسی صورت الگ نہیں ہو گا اور جب دارالعوام اور دارالامراء میں رائے شماری ہوگی تو اس فیصلے کو مسترد کر دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی اس فیصلے کے خلاف ووٹ دیں گے مگراگلے ہی لمحے انہوں نے یہ اعتراف کرکے حاضرین کو حیرت زدہ کر دیا کہ انہوں نے ریفرنڈم میں یورپی یونین سے الگ ہونے کے حق میں ووٹ دیا تھا مگر اب اس کے خلاف رائے دیں گے۔ اس کی تاویل انہوں نے یہ بیان کی کہ تب ’’بریگزٹ‘‘ کے حق میں ووٹ دیکر وہ یورپی یونین کی پالیسیوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے اور اب ملکی معیشت کے پیش نظر اس فیصلے کی مخالفت کریں گے۔ یقیناً آپ بھی اس فہم و فراست پر عش عش کر رہے ہوں گے مگر سچ تو یہ ہے بدیسی انگریزوں کی طرح دیسی، اصلی اور نسلی انگریزوں کے پاس بھی کوئی دلیل نہیں کہ انہوں نے 23جون 2016ء کو یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ کیوں دیا؟ اور اسی طرح ڈیوڈ کیمرون کے پاس بھی اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ 24سال بعد اچانک یورپی یونین کا حصہ رہنے یا الگ ہونے پر ریفرنڈم کروانے کا خیال کیسے آیا؟ 23نومبر کو جو یقین متزلزل ہوا تھا وہ 9نومبر کو پاش پاش ہو گیا۔ میرا تو خیال تھا کہ پاکستانی عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا شعور نہیں۔ میں تو اس بات پر شرمندہ تھا کہ ہمارے ہاں ایک سابق صدر جیسا داغدار شہرت کا حامل شخص صدر مملکت بن گیا مگر جب بھارت نے نریندر مودی کو وزیراعظم کے طور پر چُن لیا تو خجالت و شرمندگی کے احساس میں کچھ کمی ہوئی۔ پھر جب برطانیہ میں ریفرنڈم ہوا، گوروں نے سوچے سمجھے بغیر یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تو پہلی بار اپنی قوم پر فخر محسوس ہوا۔ مگر 9نومبر کو امریکیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کر کے اس میدان میں برطانوی گوروں کو بھی مات دیدی۔ اب پاکستانی اور بھارتی ہی نہیں برطانوی شہری بھی بغلیں بجا رہے ہیں کہ ہمارے ماتھے پہ بھی چھوٹا سا لکھا ہو گا لیکن ان امریکیوں کو دیکھو، ان کے ماتھے پر کتنا بڑا ’’فول‘‘ لکھا نظر آ رہا ہے۔ جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوئے تو پہلے تو مجھے باراک اوباما کے وہ الفاظ یاد آئے جو اس نے پہلی مرتبہ صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی تقریر میں کہے تھے : ’’امریکہ میں کچھ بھی ناممکن نہیں، اگر کسی کو اس بات پر شک تھا تو آج اس کا یہ شک دور ہو گیا ہوگا۔ وہ لوگ جو ہماری جمہوریت کی طاقت پر سوال اٹھاتے ہیں، جو پوچھتے ہیں کہ کیا ان کے آبائواجداد کے خواب آج بھی زندہ ہیں، انہیں آج کی رات جواب مل گیا ہو گا‘‘یہ الفاظ موجودہ صدارتی انتخاب کے حوالے سے بھی کس قدر برموقع و برمحل اور موزوں ہیں۔ اس کے بعد مجھے امریکی مصنف، اداکار، فنکار، مزاح نگار اور فلاسفر جارج کولن کی نصیحت یاد آئی۔ اس نے کہا تھا:
Never underestimate the power of stupid people.
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جس طرح 15برس قبل نائن الیون نے امریکہ کو بدل کر رکھ دیا اسی طرح الیون نائن بھی کسی دھماکے سے کم نہیں۔ بہر حال نائن الیون سے الیون نائن کی اس رام کہانی میں ہمارے لئے ایک ہی کام کی بات ہے کہ بچپن میں بڑوں کی بتائی سب باتیں ٹھیک نہیں ہوتیں اور انگریز بھی سر پر جوتا پڑنے کے بعد ہی سوچتے ہیں۔


.
تازہ ترین