• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حیرانی ہے امریکی عوام کی اکثریت کی سوجھ بوجھ اور دانشمندی پر کہ جس نے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کو صدر منتخب کر لیا ہے اور دنیا میں ایک بہت بڑا طوفان بپا کر دیا ہے۔ آئندہ چار سال میں پتہ چلے گا کہ یہ زلزلہ کیا تباہی لاتا ہے۔ ٹرمپ کے انتہائی غیر مہذب اور ناشائستہ ہونے کے بارے میں تو کسی کو کوئی شک نہیں مگر پھر بھی امریکی عوام نے اسے اپنا ووٹ دیا جس سے اس کی سیاسی قابلیت اور عقل مندی کے بارے میں بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اس نے ایک بہت سنجیدہ اور تجربہ کار امیدوار یعنی ہیلری کلنٹن کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس کی دنیا میں مثالیں دی جاتی ہیں کہ وہاں کتنی اعلیٰ جمہوریت ہے، عوام کتنے تعلیم یافتہ ہیں، جو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا میں سب سے آگے ہے۔ ٹرمپ کے منتخب ہونے کی وجہ سے دنیا میں خصوصاً مسلم ورلڈ میں بہت خوف وہراس پیدا ہوگیا ہے اور یہ بغیر کسی وجہ کے نہیں ہے بلکہ ٹرمپ کے اپنے ہی بیانات ہیں جو کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران دیئے۔ امریکہ میں اقلیتیں بشمول مسلمان، میکسیکنز اور تمام لوگ جو دوسرے ممالک سےآ کر یہاں آباد ہوئے ہیں بہت ڈرے ہوئے ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کا کسی بھی میدان میں کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ملک کے بے شمار مسائل ہیں جو امریکہ میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں خواندگی کی شرح بہت کم ہے، غربت بہت زیادہ ہے، معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے، فرقہ واریت کا ہم شکار ہیں۔جمہوری نظام کے خلاف اکثر وبیشتر سازشیں ہوتی رہتی ہیں، نان ایشوز کو ایشو بنایا جاتا ہے، تاریخی منصوبے بشمول پاک چین اقتصادی راہداری اور کالاباغ ڈیم متنازع بنا دیتے ہیں اور سیاست میں الزام تراشی اور تہمت بازی کا بازار گرم رہتا ہے مگر ان تمام برائیوں اور نالائقیوں کے باوجود ہمارے عوام انتہائی عقل مند ہیں اور اپنی دانشمندی اس وقت کھل کر دکھاتے ہیں جب انتخابات ہوتے ہیں کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ انہوں نے کسی ٹرمپ کو اکثریتی ووٹ دیا ہو۔ جب بھی کسی نے سیاست میں دشنام طرازی کی اس کو انہوں نے ہمیشہ بری طرح مسترد کر دیا۔
ٹرمپ کی جیت نے بہت سی ’’متھس‘‘ کو اڑا کے رکھ دیا ہے۔ ووٹرز نے ثابت کیا کہ وہ ایسے شخص کو بھی منتخب کر سکتے ہیں جس کا سیاست یا حکومت میں بالکل تجربہ نہیں ہے، جس نے الیکشن کمپین میں گالی گلوچ اور سخت زبان استعمال کی اور جو عدم استحکام کا شکار لگتا ہے۔ سفید فام ووٹرز کی اکثریت نے ٹرمپ کو جتوایا ہے۔ پچھلے آٹھ سال سے ایک سیاہ فام امریکی صدر تھے جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا جس کو انہوں نے مسترد کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ میں اکثریت گوروں کی ہے نہ کہ دوسری کمیونٹیز بشمول سیاہ فام یا دوسرے ممالک سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کی۔ ٹرمپ نے ایسے ووٹرز کو متحرک کیا جو کہ موجودہ سسٹم سے بیزار تھے۔ انہوں نے سوچا کہ ایک ایسے غیر تجربہ کار اور غیر روایتی آدمی کو صدر بنا کر دیکھتے ہیں کہ وہ ان کیلئے کیا کمالات دکھاتا ہے اور ان کی زندگی کیا بہتری لاتا ہے۔ ٹرمپ نے دیہاتی ووٹرز کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ ان کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے پاپولر ووٹ میں فرق صرف تقریباً دو لاکھ کا ہے مگر منتخب صدر نے الیکٹرول کالج میں اکثریت حاصل کی جس کی وجہ سے وہ جیت گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہیلری کلنٹن کی بھی مقبولیت کچھ کم نہیں تھی مگر وہ الیکٹرول کالج میں اپنی پوزیشن بہتر نہ کرسکیں۔
تقریباً 99فیصد امریکی میڈیا کھل کر ٹرمپ کے خلاف تھا۔ بڑے بڑے اخبارات نے ایڈیٹوریل بھی اس کے خلاف لکھے۔ ہیلری کلنٹن کی واضح الفاظ میں حمایت کی۔ میڈیا بار بار یہ لکھتا رہا اور کہتا رہا کہ ٹرمپ کی کامیابی نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کیلئے ایک بہت بڑا’’ڈیزاسٹر‘‘ اور ’’ٹریجڈی‘‘ ہوگی مگر پھر بھی امریکی عوام نے ٹرمپ کو ہی منتخب کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک جہاں میڈیا کی رسائی بہت زیادہ ہے۔وہاں بھی میڈیا ووٹروں کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے علاوہ تمام سروے، پولز، تبصرہ نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے بار بار یہ پیشنگوئی کی کہ ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ پر واضح برتری حاصل ہے مگر بالآخر کیا ہوا سب کے سامنے ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ جو کہ چاہتی تھی کہ ہیلری کلنٹن جیت جائے بھی بری طرح ہار گئی۔ لہٰذا ایک ہی جیت میں ٹرمپ نے نہ صرف ہیلری کلنٹن کو شکست دی بلکہ میڈیا، تجزیہ نگاروں، سروے اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہرا دیا۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ہیلری کلنٹن کے ساتھ کام کرتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہونا تھا کیونکہ وہ آٹھ سال فرسٹ لیڈی رہ چکی ہیں اور موجودہ امریکی صدر کے دور میں وزیر خارجہ کے طور پر کام بھی کر چکی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کے ساتھ کیسے ہم آہنگی سے کام کرےگی یہ آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا۔ انتخابات سے پہلے بہت سے اہم امریکی عہدیداروں بشمول نیشنل سیکورٹی کے افسران نجی طور پر کہہ چکے تھے کہ اگر ٹرمپ منتخب ہوگئے تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ جہاں تک پاک امریکہ تعلقات کا سوال ہے تو ان کا ٹرمپ کے دور میں ابتر ہونے کا امکان ہی ہے۔ کافی عرصہ سے یہ تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ اوباما ایڈمنسٹریشن پاکستان سے کافی مطالبات کر رہی تھی جن کا ماننا پاکستان کیلئے ممکن نہیں تھا۔ ٹرمپ کی ’’کائوبوائے‘‘ شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کی صدارت کے دور میں پاکستان کے بازو کو اورمروڑا جائے گا۔ نہ صرف ہر پاکستانی بلکہ پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بھی ٹرمپ کی کامیابی پر پریشان ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات سے پہلے ہی پاکستان چین کے ساتھ اپنے مثالی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے گیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال اقتصادی راہداری کے منصوبے ہیں لہٰذا ہمارے پالیسی سازوںکو اگلے چار سال کے دوران زیادہ چین کی طرف ہی جھکائو رکھنا پڑے گا کیونکہ ٹرمپ کی صدارت کے دوران امریکہ سے ہمارے لئے کوئی اچھی خبر نہیں آئے گی۔


.
تازہ ترین