• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج نے پوری دنیا کو پریشان کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مخالف امیدوار ہیلری کلنٹن کو شکست دے کر امریکہ کے45ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ انھو ں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نہیں بلکہ اپنے روزگار کو ووٹ دیئے ہیں۔ حالیہ امریکی انتخابات کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ میں یہ کہا جا رہا تھا کہ سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ پر چند فیصد ووٹوں کی برتری حاصل ہے مگر الیکشن ڈے کے دوران صورتحال مختلف نظر آئی۔ امریکی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے تمام تر دعوے ریت کی دیوار ثابت ہو ئے اور آخرکار سب تجزیوں، تخمینوں اور پیشگوئیوں کو مات دے کر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ چار سال کے لئے امریکی صدر بن گئے ہیں۔ اب وہ جنوری 2017میں امریکی صدارت کا حلف اٹھائیں گے۔ تادم تحریر ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو 28امریکی ریاستوں میں شکست دے دی ہے جبکہ ہیلری 50میں سے صرف18 ریاستوں میں کامیاب ہو سکی ہیں۔ پنسلوانیا اور وسکوسن جیسی ریاستوں سے بھی ٹرمپ کو کامیابی ملی جہاں سے ماضی میں ریپبلکن امیدوار ہارتے رہے ہیں۔ اس بار 69سالہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی نظر امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے پر تھی مگر انھیں الیکشن میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی صدارتی انتخاب کے جو بھی نتائج نکلنے تھے وہ تو نکل چکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے سے پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا ہونگی یا پھر صورتحال میں بہتری آئے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چاہے کو ئی بھی امریکی صدر بن جائے پاکستان پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ امریکہ کی پالیسیاں پینٹاگون اور سی آئی اے بنا تے ہیں اور وہاں بھی پاکستان کی طرح امریکی اسٹیبلشمنٹ سول قیادت پر حاوی رہتی ہے چنانچہ ہر آنے والے امریکی صدر کو پینٹاگون کی ہی پالیسی کو آگے لے کر چلنا ہوتا ہے۔ پا کستان کی اسٹیبلشمنٹ کے بھی امریکی فوج سے اچھے اور مضبوط تعلقات ہیں اس لیے ٹرمپ کے جیتنے سے پاکستان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اگرچہ امریکی صدارتی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتہا پسندانہ اور غیر متوازن بیانات دیئے گئے ہیں مگر اس کے باوجود دکھائی یہ دے رہا ہے کہ نئے امریکی صدر کو عالمی امن قائم کرنے کے لئے اپنے رویے میں تبدیلی لانی پڑے گی۔ ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اوباما حکومت کی وہ پالیسیاں ہیں جنھیں امریکی عوام نے حالیہ انتخابات میں یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اوباما نے اپنے آٹھ سالہ دور صدارت میں امریکیوں سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے۔ اوباما نے صدر بننے کے بعد امریکی عوام کو سہانے خواب دکھا ئے تھے کہ وہ معیشت کو مضبوط بنائیں گے اور عالمی امن کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے لیکن وہ اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اوباما نے کہا تھا کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج کو واپس بلا لیں گے مگر تاحال وہاں دس ہزار فو جی موجود ہیں۔ گو ایک بڑی تعداد میں امریکی و نیٹو فورسز کا وہاں سے انخلا ہو چکا ہے لیکن امریکی عوام کو اوباما حکومت کے اس رویے سے سخت مایوسی ہوئی ہے کیونکہ وہ افغانستان سے فوج کی مکمل واپسی چاہتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی امریکی مداخلت کا سلسلہ جاری ہے۔ عراق، شام، لیبیا اور یمن کی خا نہ جنگی میں بھی امریکہ پوری طرح ملوث ہے۔ گزشتہ دنوں روسی صدر پیوٹن نے بھی انکشاف کیا تھا کہ امریکہ اور یورپی ممالک داعش کی سر پرستی کر رہے ہیں اور شام و عراق کے جن علا قوں پر داعش کا قبضہ ہے وہاں سے سستا تیل امریکہ اور یورپی ملکوں کو بجھوایا جا رہا ہے۔
امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ کے لئے اب یہ کڑا امتحان ہو گا کہ وہ کس طرح اوباما حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کو تبدیل کریں گے؟ اور کیا امریکیوں کو حقیقی معنوں میں ریلیف دے پائیں گےیا نہیں؟ اس کا اندازہ اگلے چند ماہ میں ہو جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ساتھ ریپبلکنز نے ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں اکثریت حاصل کر کے میدان مار لیا ہے۔ اسی طر ح ریپبلکن پارٹی نے الیکشن میں فلوریڈا، اوہائیو اور شمالی کیرولینا جیسی مشکل ریاستوں میں بھی کامیابی حا صل کی ہے۔ نو منتخب امریکی صدر نے اپنی انتخابی مہم میں یہ نعرہ دیا تھا کہ ہم مل کر کام کر یں گے اور امریکہ کو عظیم بنائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے رویے اور لب و لہجے میں تبدیلی لاتے ہیں یا پھر اپنی انتہاپسندانہ روش پر قا ئم رہتے ہیں؟ ان کے با رے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں سیاست کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اب ٹرمپ کو اپنے انداز سیاست کو بدلنا ہو گا اور اپنے رویے میں بھی اعتدال لانا ہو گا بصورت دیگر انھوں نے اگر انتہاپسندانہ روش نہ بدلی تو امریکہ کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیو نکہ روس اور چین امریکہ کے لئے مستقبل کا خطرہ بنے ہو ئے ہیں۔ امریکہ کے نئے صدر نے خود تسلیم کیا ہے کہ ہیلری کلنٹن نے سخت مقابلہ کیا ہے اپنی فتح کے بعد نیویارک میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہیلری نے انھیں فون کر کے مبارکباد دی ہے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ کا ش ہمارے ہاں بھی الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے کی روایت پڑ جا ئے۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں میں جمہوری نظام مستحکم ہو چکا ہے۔ پاکستان میں بھی جمہوری سسٹم چلتا رہے تو عوام اور سیاسی جماعتوں کا جمہوریت پر اعتماد بڑھے گا۔ سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟ ویسے ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران دنیا کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہم سب ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں گے جو ہم سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سب ملکوں کے ساتھ شراکت کریں گے نہ کہ مقابلہ بازی۔ نومنتخب امریکی صدر روس کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ اگر واقعی امریکہ روس اور چین کے ساتھ مقابلہ بازی کی بجائے شراکت کا رویہ رکھے گا تو اس کے عالمی امن پر اچھے اثرات پڑیں گے لیکن ماضی کا تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ عالمی امن کو تباہ کیا ہے۔ روس، چین اور اسلامی دنیا کو اس نے ہمیشہ اپنا حریف سمجھا ہے۔ جما عت اسلامی کے امیر سراج ا لحق کا یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ نئے امریکی صدر کو اپنی پا لیسیوں سے ثابت کرنا ہو گا کہ امریکہ دنیا میں امن کا خواہاں ہے یا نہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ ہی تھا کہ جس نے جاپان میں ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرا کر لا کھوں انسانوں کا قتل عام کیا تھا۔ قصۂ مختصر! نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے آئندہ پالیسیاں ثابت کریں گی کہ امریکہ نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے یا نہیں؟


.
تازہ ترین