• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے دُنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے، دُنیا کے بہت سے حساس اور تاریخ و اسٹرٹیجک معاملات پر نظر رکھنے والے حضرات نے اُنکی کامیابی کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیا ہے، خود امریکہ میں بھی دُنیا بھر سے آئے ہوئے تارکین وطن نے تشویش کا اظہار کیا ہے، دُنیا میں امن کے خواہاں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو ایک بُری خبر قرار دیا ہے جبکہ پاکستان، ایران، چین اور دیگر ممالک میں بھی قدرے فکرمندی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مزید کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائیگا، اگرچہ یہ مطالبہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے، ہلیری کلنٹن بھی منتخب ہوجاتیں تو وہ بھی دبائو ڈالتیں۔امریکہ نے ایشیا ء میں بھارت کو اپنے مہرے کے طور پر چن لیا ہے اور بھارت نے بھی امریکہ کیلئے خوشدلی سے کام کرناقبول کرلیا ہے کیونکہ بھارت ایک عالمی طاقت بننا چاہتا ہے، وہ چین اور پاکستان سے عناد رکھتا ہے اور اس کیلئے وہ دُنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے ساتھ زیادہ سختی کا برتائو کرے گا اور بھارت کے ساتھ ملکرپاکستان کیلئے مشکلات پیدا کریگا ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں انتہا پسند حکومتیں ملکر اس روئے زمین کی سلامتی کو ہی خطرہ میں ڈالدیں، مگر ریپبلکن پارٹی کے منشور کو دیکھا جائے تو وہ پاکستان سے تعلقات رکھنے کی بات کرتا ہے، پاکستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن اُسکی ایٹمی قوت کو پیش نظر رکھتا ہے۔ مگرتشویش کی بات یہ ہے کہ انہوں نے انتہاپسندی کو بالکل اُسی طرح ہوا دی جسطرح بھارت میں نریندر مودی نے ہوا دی تھی۔ بھارت میں نریندر مودی نے ہندو انتہا پسندوں کو اپنے ساتھ ملا یاتھا اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 سفید فام انتہا پسند ریاستوں میں اپنا ووٹ بینک مضبوط کیا اور اُسکے مضبوط کرنے میں اُن کا سفید فام پولیس نے اسطرح ساتھ دیا کہ کئی کالے امریکیوں کو مار ڈالا اور جواباً جو مظاہرے ہوئے اس سے بھی سفید فام ووٹرز ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف مائل ہوئے کہ یہی ہمارے ملک کو تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی سیاسی قوت سے نجات دلا سکتا ہے۔ دکھاوے کے طور پر امریکی ادارے ہلیری کلنٹن کی حمایت میں نظر آئے مگر انہوں نے بہت باریک کھیل اسطرح کھیلا کہ ٹرمپ جیت گئے۔ میڈیا نے ہلیری کو امریکہ کی یکجہتی کی علامت کے طور پر پیش کیا، خود ہیلری نے اپنے آپ کو تارکین وطن کے محافظ کے طور پر پیش کرنے میں فخر محسوس کیا، مگر جہاں امریکی معاشرے کا جو انسان دوست، تارکین وطن کا ملک، انصاف پسند کا تاثر تھا، اِس الیکشن نے ثابت کردیا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ وہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے، کائو بوائز کا معاشرہ ہے، وہ ایک عورت کو امریکہ کا صدر دیکھنا نہیں چاہتا، چاہے وہ کتنی ہی تجربہ کار اور سمجھدار ہو۔ ویسے ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ ایک پارٹی کو آٹھ سال سے زیادہ برداشت نہیں کرتے۔ اگر ہلیری اور ڈونلڈ ٹرمپ کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہلیری ایک اچھی خاتون ثابت ہوئیں کہ انہوں نے اپنے شوہر بل کلنٹن اور ایک خاتون کے درمیان تعلقات کو بردباری کے ساتھ برداشت کیا، جسکو کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک وکیل ہونے کے ناطے انہوں نے اچھا کیا۔ دوسری طرف ٹرمپ کے خلاف گیارہ عورتوں نے گواہی دی کہ وہ خراب کردار کے مالک ہیں مگر اس معاشرے نے اسےذاتی معاملہ قرار دے کر صرفِ نظر کیا اور اسلئے بھی کہ انکا یہ کردار بطور صدر نہیں بلکہ صدر بننے سے پہلے کاتھا جو اس معاشرے میں عام ہے، اسلئے اخلاقیات وہاں کا مسئلہ نہیں بلکہ وہ ایک طاقتور شخص کو امریکہ کا صدردیکھنا چاہتے تھے۔ امریکی عوام کی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ اِس معیار پر پورے اترتے تھے، اِسکے علاوہ وہ امریکہ کے مفادات کا زیادہ تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی انتخابات میں کسی بھی امیدوار کی کامیابی میں میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے مگر شاید وہ دیہات اور عام سفید فام شہری کی نفسیات کو نہیں سمجھ سکے کہ امریکی شہری تارکین وطن سے کس قدر خوفزدہ ہوچکے ہیں اور وہ اپنی سفید فام انفرادیت کو برقرار رکھنے والے کو صدر منتخب کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے تاہم اس کا اظہار ووٹ کے ذریعے کرنا چاہتے تھے ، سو انہوں نے کردیا۔ یہ بھی بات درست ثابت نہیں ہوئی کہ ہلیری کو خاتون ہونے کے ناتےسے کچھ برتری حاصل ہوسکے گی کیونکہ وہاں کی تمام خواتین نے ایک خاتون کو ووٹ نہیں دیا، وہ اسی طرح سے تقسیم ہوئیں جس طرح اُن کا سفید فام معاشرہ تقسیم تھا۔ اِس الیکشن میں ماضی کی طرح ووٹرز نے اچھے یا بُرے صدر ہونے کے معیار کہ کس میں قائدانہ صلاحیت کتنی ہے، وہ اپنے پیش رو صدر سے کتنا بہتر رہے گا یا بُرا ثابت ہوگا، امریکہ کی خارجہ پالیسی کیسی بنائے گا ،کا خیال ضرور رکھا مگر اس میں انہوں نے ایک عورت کی بجائے سفید فام کلچر کو محفوظ کرنے والے اور ایک نرم خو شخصیت کی بجائے ایک سخت خو اور کائوبوائے ذہنیت کے حامل شخص کو اپنے ملک کا صدر منتخب کرلیا۔ ناہمواری کو برقرار رکھنا سفید فام ووٹروں کی ضرورت تھی، دُنیا کو خوفزدہ کرنا امریکی اداروں اوران کی دلی خواہش ہے۔ اس میں امریکی اسٹیبلشمنٹ نے باریک کام یہ کیا کہ نظر کسی اور طرف رکھی اور نشانہ کسی اور کو بنایا۔ جیت کا تاثر ہلیری کلنٹن کے بارے میں اُجاگر کیا اور جتا دیا ڈونلڈ ٹرمپ کو۔ وہ ہلیری کو بریفنگ پر بریفنگ دیتے رہے مگر آخری ہفتے میں انہوں نے ہلیری کلنٹن کو ای میلز کیس میں ملوث کرکے اُن کی مقبولیت میں کمی کردی اور الیکشن سے تین روز پہلےان کو بری کردیا مگر اس سے اُن کو ٹرمپ کے حوالے سے خاطرخواہ نقصان پہنچ چکا تھا، اسٹرٹیجک نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو امریکہ کو ایک بنیاد پرست، سخت گیر اور کم علم صدر کی ضرورت تھی تاکہ عالمی امراء اپنی مرضی پوری کرسکیں اور اُن کے مطابق دُنیا میں جو نظام انہوں نے 1945ء میں بنایا تھا اور وہ گل سڑ چکا ہے اور اس کی وجہ سے امریکہ کو کئی ملکوں سے خطرہ لاحق ہوچکا ہے، اسلئے اس نظام کو بحال کرنے کیلئے انہیں ایک جنگ کی ضرورت ہے، جو ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص سے با آسانی کرائی جاسکتی ہے۔ اسی لئے یورپ کےکئی ممالک نے کھل کر خوف کا اظہارکیا ہے۔روس نے اگرچہ ٹرمپ کے انتخاب کو خوش آئند قرار دیا ہے مگروہ ہی پہلا ہدف ہوسکتا ہے۔ ہم نے پہلے ہی یہ بتادیا تھا کہ مستقبل میں دنیا کن مراحل سے گزر سکتی ہے پہلے مرحلہ یہ طے کیا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا اور پھر تارکین وطن کی بڑی تعداد میں اپنے اپنے ملکوں کو واپسی ہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے نے اس امکان کو بڑھا دیا ہے امریکہ میں اندرونی خلفشار ہوسکتا ہے، اِس کے بعد دنیاعالمی کساد بازاری سے گزر سکتی ہے جس میں وہ چین کی معاشی طاقت کو لپیٹنے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں اور پھر ایک عالمی جنگ کے ذریعے امریکہ اپنی بالادستی دُنیا بھر سے بلاشرکت غیر قائم کرنے کی کوشش کریگا۔ یہ حرفِ آخر نہیں ہے تاہم صورتحال اس قدر پیچیدہ ہےکہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے احتیاط کی ضرورت ہے ، بہرحال اس بات پر دو رائے نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد دُنیا کے امن کو پہلے سے زیادہ خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔


.
تازہ ترین