• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
8نومبر کونیویارک میں سارا دن صدارتی انتخابات کی کوریج کے بعد اچانک متوقع امریکی خاتون صدرہلیری کلنٹن کے جشن انتخاب میں جانے کی دعوت ملی تووہ ٹانگیں جو سارا دن پیدل چلتے چلتے جواب دے چکی تھیں میں نئی جان پڑگئی کوریج کے لئے اپنے واحد ہتھیاریعنی اپنے موبائل فون کی ا سکرین کو صاف کیا اسے چارج کیا کہ پتہ نہیں کیا کیا تاریخی شاٹس بنانے کو ملیں گےسوچا کہ کیوں نہ اس موقع سے پورا فائدہ اٹھایا جائے دل میں خواہش تھی کہ بس اس امریکی خاتون صدارتی امیدوارکے ساتھ ایک سیلفی بنالوں پھر اس کے بعد جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ ہم بھی ان سینکڑوں امریکیوں اورغیرملکیوں کے سنگ سخت سیکورٹی سے گھرے نیویارک کے کنونشن سینٹرمیں جیسے ہی داخل ہوئے تودروازے بند کردیئے گئے جیسے ہمارا ہی انتظارہورہا تھا ہرطرف پولیس ہی پولیس تھی صبح سے ہی سیکورٹی الرٹ جاری ہوچکا تھا چونکہ دونوں صدارتی امیدواریعنی ڈونلڈ ٹرمپ اورہلیری کلنٹن نیویارک میں موجود تھے اس لئے کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش آسکتا تھا ۔ ہال میں داخل ہوئے توایسا لگا جیسے آئے توشادی کے گھر میں تھے لیکن کوئی بری خبرآنے کے بعد وہ ماتم کدہ بن چکا ہے ۔ ہوا کچھ یوں کہ ہلیری کلنٹن کے وہ حمایتی جویقینی جیت کی توقع لیکر آئے تھے وہ وہاں لگی بڑی ا سکرینزپرٹی وی کی خبروں سے سمجھ چکے تھے کہ کھیل الٹا ہوچکا ہے اوران کی امیدوارہار چکی ہیں ایسے میں جوحال ہونا تھا وہ ہمارے سامنے تھا لوگ تھے کہ جیسے انہیں سکتہ ہوچکا ہوجن میں ساکت ہونے کی صلاحیت تھی وہ توبیٹھے رہے لیکن جن سے یہ سب برداشت نہیں ہورہا تھا وہ ہال سے واپس جارہے تھے ہم بھی نیویارک کے بڑے صحافی عظیم ایم میاں کے ساتھ اندرجاتے گئے ہم جب اندرجارہے تھے تولوگوں کی بڑی تعدادہال سے واپس نکل رہی تھی تب ہمیں سرگوشیوں میں پتہ چلا کہ خبرکوئی اتنی اچھی نہیں اوران حمایتیوں کی طرح ہمارا بھی دل ٹوٹ گیا کہ اب توسیلفی بنی بھی تووہ ایک سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ کے ساتھ توہوگی لیکن امریکی صدر کے ساتھ نہیں۔ہمیں توبتایا گیا تھا کہ ہلیری کلنٹن مستقل اسکینڈلزکی زد میں رہنے والے اپنے مدمقابل ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف یہ انتخاب تقریبا جیت چکی ہیں ایسی حالت میں جب امیدواراوران کے حمایتیوں کے دل ٹوٹ چکے تھے ہال میں تھوڑی بہت ہُوہا کے نعروں کے بیچوں بیچ خواتین نے رونا شروع کردیا دل منہ کوآگیا یوں توہم نے سنا تھا کہ یہ رونا دھونا مشرق کی میراث ہے اورامریکہ اورمغرب میں اس قسم کے جذبات کم ہی ہوتے ہیں لیکن یہ ساری باتیں بھی آج غلط ثابت ہوئیں۔
ہلیری کلنٹن کے حمایتی رورہے تھے اورٹی وی ا سکرینزپرنمودارہونے والے تجزیہ نگاربھی حیران وپریشان تھے کہ ان کے تونہ صرف سارے اندازے غلط ثابت ہوگئے بلکہ ان کی توناک ہی کٹ گئی کہ انہوں نے توبہت دنوں سے تجزیے کرکرکے ہلیری کو یہ انتخاب جتوابھی دیا تھااورجب تجزیے الٹے ہوگئے تو کچھ ٹی وی اینکرزنے توٹرمپ کی جیت کی خبرتک نشرکرنے سے انکارکردیا کہ اتنا دل ٹوٹنے کے بعد کوئی کیا خبردے۔
صبح سے پولنگ ا سٹیشنز میں جانے والے ووٹروں کی زبان پرتھاکہ ان کے پاس صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے دونوں امیدوار"نوآپشن یا بیڈآپشن"کی صورت میں موجود ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ موجودہ امیدواروں کے معیارسے مطمئن نہیں تھے لیکن پھربھی اپنا فرض سمجھ کرووٹ ڈال رہے تھے یہ سب اس نیویارک میں ہورہا تھا جوہلیری کلنٹن اورموجودہ صدرباراک کی پارٹی کوجتواتا رہا ہے اس کے گردونواح اورشہرکے بعض علاقے توان کے خلاف جاتے رہتے تھے لیکن شہرکا بڑا حصہ ان کے حق ہی میں تھا۔
کوریج کے دوران جب بھی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی وہ یہی کہتے رہے کہ ہلیری کلنٹن انتخاب جیت چکی ہیں اوریہ جوالیکشن ہورہا ہے یہ توبس ایک فارمیلٹی ہے ہمیں ان کے یقین کے پیچھے اپنے حوالے سے خوف واضح نظرآرہا تھا کہ وہ کسی صورت مسٹرٹرمپ کی جیت کے لئے ذہنی طورپرتیار نہ تھے وہ ٹرمپ جس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بہت کچھ عجیب یا ناپسندیدہ کہا تھا اس میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ ان ممالک جہاں پردہشت گردی ہے یا وہاں سے دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے ان کے شہریوں کا داخلہ امریکہ میںبند کردینگے اورجو ہیں ان کو بھی واپس بھیج دینگے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف بھی کارروائی کرینگے اورکسے پتہ نہیں کہ کون کون سے ممالک میں دہشت گردی ہورہی ہے یا ان پرالزام ہے کہ وہ دہشت گردی ایکسپورٹ کررہے ہیں ایسے میں ان ملکوں کے امریکہ میں موجود لوگوں کا خوف سمجھ میں آرہا تھا۔ لیکن بات صرف ان ملکوں کے لوگوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ خود امریکی بھی پریشان تھے کہ ٹرمپ منتخب ہوئے تووہ اوباما کیئرکے نام سے موجودہ صدرباراک اوباما کے صحت کے پروگرام کوبھی رول بیک کردیں گے۔ اب تک توشاید یہ سب مل کرمسٹرٹرمپ کے ان اعلانات کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہے تھے لیکن شام کو جوں جوں ان کی جیت کے امکانات روشن نظرآنے لگے توخوف نے سب کو گھیرلیا کہ وہ تونہ صرف مقابلہ کررہا ہے بلکہ وہ توسب کو حیران بھی کررہا ہے۔ لوگوں کی زبانیں گنگ ہورہی تھیں کہ کیسے ایک ایسے شخص کوصدرکے طورپربرداشت کریں جس کی ہربات ان کے لئے انجانی اورپریشانی کا باعث تھی لیکن کیا کیا جائے ووٹرزکا، کہ انہوں نے تواس شخص کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔ جوبھی ہو امریکی عوام نے ان کو دستیاب بیڈآپشن (براآپشن ) یا نوآپشن (کوئی آپشن نہیں) میں سے اس آپشن کواپنا لیا تھا جس کے بارے میں کسی کو یقین نہ تھا اب جوسب سے بڑا سوال بن کرابھرا ہے وہ یہ ہے کہ جنسی اوراخلاقی اسکینڈلز کی زد میں رہنے والا مسٹرٹرمپ امریکہ کا نیا صدربن چکا ہے اورکسے پتہ نہیں کہ امریکی صدرصرف اپنے ملک کا صدرنہیں ہوتا بلکہ وہ پوری دنیا کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے اس لئے دنیا کو لاحق خدشات مزید گہرے ہوگئے ہیں۔


.
تازہ ترین