• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20جنوری 2017ء کو اپنے نئے عہدے اور نئے فرائض کا حلف اٹھائیں گے توقع کی جاتی ہے کہ تب تک ان کے انتخاب کے خلاف احتجاجی مظاہرے تھک ہار کر بیٹھ چکے ہوں گے۔ لیکن یہ سمجھ نہیں آیا یہ احتجاجی مظاہرے، دھرنے، پتلے جلانے اور شور مچانے کی وجہ کیا ہے ؟ کیا امریکی صدارتی انتخاب میں کوئی دھاندلی ہوئی ہے ؟ جعلی ووٹ ڈالے گئے ہیں ؟ یا انتخابات کے نتائج عام امریکی شہریوں کی توقع کے خلاف ہیں ؟ ہیلری کلنٹن کے حق میں ووٹرز ٹرمپ کے حق میں ووٹ دینے والوں کے خلاف ہیں ؟ سو میں سے 49 ووٹ حاصل کرنے والے 51ووٹ حاصل کرنے والوں کے خلاف ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں کہ یہ جمہوریت کا تقاضہ ہے تو پھر پرابلم کیا ہے ؟ صدر بش کے ڈیڈی نے ایسی کون سی توپ چلائی تھی جو ان کے صاحبزادے سے نہیں چل سکی ؟ دونوں کا امریکی تاریخ میں ایک جیسا مقام ہے جو کچھ اتنا قابل فخر بھی نہیں ہے ۔ٹرمپ صاحب 20جنوری تک امریکہ کے منتخب صدر کہلائیں گے اور حلف اٹھانے کے بعد ’’فل فلیج ‘‘ صدر امریکہ بن جائیں گے ہمارے بعض تجزیہ نگار یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے بالغ ووٹر ز امریکہ کے بالغ ووٹروں سے زیادہ ترقی پسند واقع ہوتے ہیں پاکستان کے بالغ ووٹرز جن میں ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کے ووٹرز بھی شامل ہیں پاکستان میں تین خواتین کو سربراہان مملکت کے طور پر منتخب کر چکے ہیں ۔ دوبار محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور ایک مرتبہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی منتخب کی گئی تھیں مگر مارشل لاء والوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا امریکہ کے بالغ ووٹروں کو پہلی مرتبہ ایک خاتون کو بطور صدر منتخب کرنے کا موقع ملا تھا جن کے شوہر نامدار کووہ اپنے ملک کا صدر منتخب کر چکے تھے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معجزہ ہونے نہیں دیا یعنی امریکہ میں خاتون کوصدر بنانا کالی رنگت والے امیدوار سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔صدر ٹرمپ 20جنوری کو جو حلف اٹھائیں گے اس حلف کے وزن کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے اور پوری دنیا کی صدارت کا حلف اٹھانے کے برابر ہے ۔ ایک افریقی خاتون کا ایک شعر یاد آتا ہے کہ جس کے بھائی کو فائرنگ سکوارڈ کے سامنے کھڑے کرکے گولی مار دی گئی تھی خاتون کے شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہو سکتا ہے ’’دس ہزار ٹن وزن کی ہوتی ہے وہ گولی جو سینے پر آکر لگتی ہے جب آنکھوں پر پٹی باندھی ،ہاتھ پیچھے بندھے ہوں اور پیٹھ دیوار کے ساتھ لگی ہو ‘‘ دنیا کی حاکمیت کا بوجھ بھی پوری طرح ذہن میں نہیں آسکتا لیکن یقینی طور پر سینے میں پیوست ہونے والی گولی سے زیادہ وزنی ہوتا ہو گا ۔ ہمارے جیسے غیر اہم لوگوں کی اور پیدل چلنے والے تقریباً عام لوگوں اور ان کے عزیز و اقارب اور پسماندگان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں دس بارہ مرتبہ اپنے عہدے یا ذمہ داریوں کا حلف اٹھایا اور فرائض کا چارج دیا ہو گا۔ بارہ مرتبہ یہ حلف میں نے ایک بال پوائنٹ پنسل کی صورت میں اٹھایا اور بال پوائنٹ پنسل کی صورت میں ہی بطور چارج دیا گیا چنانچہ نہ چارج دیتے وقت کچھ تکلیف ہوئی نہ چارج لیتے وقت کوئی دقت پیش آئی اور بقول شاعر ؎سکندر جب چلا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھےآخری تجزیہ ہر حالت میں یہی ہوتا ہے اور ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔


.
تازہ ترین