ملک کے مختلف حصوں میں کم عمر بچوں میں غذائی قلت کا مسئلہ اب اتنی شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ اس کے حل کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت بن گیا ہے اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں رہا کہ اوائل عمری میں مناسب نشو و نما دینے والی غذائی اشیاء کی عدم فراہمی کی وجہ سے بچوں کی ایک بڑی تعداد مختلف امراض کا شکار ہو کر موت کی وادی میں پہنچ جاتی ہے اور جو سخت جان بچے اس ناگفتہ بہ صورتحال سے بچ نکلتے ہیں وہ نہ صرف موزوں قد و قامت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی وقت کسی بیماری کی گرفت میں آنے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں کے پی کی حکومت نے اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جبکہ حکومت پنجاب نے غذائی قلت کے شکار بچوں کے والدین کو ایک ہزار روپیہ امدادی فنڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ڈائریکٹوریٹ ہیلتھ سروسز نے اس سلسلے میں سفارشات کی سمری وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوانے کے لئے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں، جو منظوری کے بعد فوری طور پر نافذ العمل ہو جائیں گی۔ ہمارے ہاں عام طور پر سندھ میں تھر اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں بچوں کے لئے مناسب غذائی اشیاء کی قلت کی خبروں کو نمایاں کوریج دی جاتی ہے لیکن پنجاب اور دیگر صوبوں کے بچوں میں پائی جانے والی غذائی قلت کا بہت کم تذکرہ کیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے بیشتر اضلاع میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں بہت سے خاندانوں کے پاس روزگار کی سہولت میسر نہیں یا ان کی ماہانہ آمدنی اتنی کم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے پھل اور دودھ تو درکنار دو وقت کا مناسب کھانا بھی فراہم نہیں کر پاتے یہی صورتحال دوسرے صوبوں میں بھی ہے ان حالات میں وفاق اور صوبوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کریں تاکہ مستقبل کی نسل کو درپیش اس مسئلہ کو موثر طور پر حل کیا جا سکے۔
.