• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’دشمن سے ہماری اقتصادی ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔جوں جوں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ تکمیل کے مراحل کی طرف بڑھ رہا ہے توں توں دشمن کی بے چینی اور بوکھلاہٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔شاہ نورانی کی درگاہ پر حملہ دراصل ہماری اقتصادی شہ رگ سی پیک پر حملہ ہے۔ سکیورٹی سخت ہونے کے باعث دہشتگرد کہیں اور حملہ آور نہیں ہو سکے تو ’’سوفٹ ٹارگٹ‘‘ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔مغربی روٹ سے پہلے چینی قافلے کی آمد اور گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر اس دھماکے کا ہونا محض اتفاق نہیں ہو سکتا ۔ٹائن لائن بہت اہم ہے۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ دشمن کسی خام خیالی میں نہ رہے،ہم اقتصادی راہداری کا منصوبہ ہر قیمت پر مکمل کریں گے‘‘
یہ ہے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارا نیشنل ایکشن پلان اور قومی بیانیہ ۔ہر دھماکے اور ہر واردات کے بعدحکام کی جانب سے اس بیانئے کا وِرد یوں کیا جاتا ہے جیسے درگاہوں پر جمع ہونے والے زائرین مخصوص الفاظ کا وِرد کرتے ہیںاور یہ سمجھتے ہیں کہ ان الفاظ کی مالا جپنے سے وہ ہر آفت اور شرسے محفوظ و مامون رہیں گے۔نورانی نور…ہر بلا دور…باقی بلائیں تو شاید دور ہو جاتی ہوں مگر یہ ٹوٹی کمر والی مخلوق جان نہیں چھوڑتی۔ ہمارے ملک کے ناخدائوں کا بھی شاید یہی خیال ہے کہ قومی بیانئے کے ان الفاظ کو بار بار دہرانے سے شاید دشمنوں پر رقت طاری ہو جائے اور وہ ہتھیار پھینک دیں یا عین ممکن ہے کہ ان زوردار بیانات سے ہی ان کی کمر ٹوٹ جائے اور لوگوں کی جان چھوٹ جائے۔
مذمتی بیانات کی دھماچوکڑی میں،میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ درگاہ شاہ نورانی پر دھمال سے ہمارے کس دشمن کو خطرہ تھا؟اور ان لوگوں کو قتل کرنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے جن کی اکثریت کو معلوم ہی نہ تھا کہ اقتصادی راہداری کس چڑیا کا نام ہے؟اقتصادی راہداری کے دشمنوں نے اس منصوبے کو سبو تاژ کرنا ہوتا تو سڑکیں بنانے والوں پر حملہ کرتے ،کسی قافلے اور کانوائے کو نشانہ بناتے ، انجینئرز کی گھات میں رہتے مگر حیرت ہے انہوں نے خضدار کی تحصیل وڈھ میں ایک مزار کو نشانہ بنایاجس کا سی پیک منصوبے سے دور دور تک کوئی تعلق اور واسطہ نہیں۔کیا سوچا ہو گا اس شاطر دشمن نے؟کہیں اس نے یہ سوچ کر تو حملہ نہیں کیا کہ دھمال ڈالنے والے دراصل اکنامک کاریڈور بنانے والے مزدور ہیں جو اپنے پیروں کی دھمک سے پہاڑوں کو لرزا کر گرانے والے ہیں اور پھر یہاں بھی کوئی روٹ تعمیر ہو گا؟آخر کچھ تو اس ہو گا اس چالاک دشمن کے ذہن میں۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس درگاہ پر آنے والے زائرین کی طرح اسے بھی صاحب درگاہ کی کرامات پر یقین ہو اور اس نے یہ سوچ کر حملہ کیا ہو کہیں ورداور دھمال کی طاقت سے یہ کوئی کمال نہ کر ڈالیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اقتصادی راہداری منصوبہ مکمل نہ ہو جائے۔سوچیں ،دماغ پر زور دیں آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟کوئی بھی جواز گھڑ لیں کیونکہ یہ بات توطے ہے کہ حملہ سی پیک کے دشمنوں نے کیا ہے۔ہو نہ ہو یہ ’’را‘‘ اور این ڈی ایس کی ہی کارستانی ہے۔لیکن اگر واقعی یہ حملہ انہوں نے کیا ہے توبراہ کرم ایک معمہ حل کر دیجئے ،ایک پہیلی اور الجھن سلجھا دیجئے ۔کیا یہ غیر ملکی دشمن بھی ہمارے ہاں ایک مخصوص مسلک اور اعتقاد کے حامل افراد کی طرح صوفیا کے مزاروں اور اولیا ء کی درگاہوں کو شرک کا گڑھ سمجھتے ہیں؟
افسردہ اور ملول نہ ہوں ۔جس طرح کوئٹہ حملے کے ماسٹر مائنڈ وزیراعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اللہ زہری نے چند ہی روز بعد دبوچ لئے اور کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی اسی طرح درگاہ شاہ نورانی پر ہونے والے دھماکے کے ماسٹرمائنڈ کا کھوج بھی وہ کسی ایجنسی اور ادارے سے پہلے لگا لیں گے۔دل چھوٹا نہ کریں ،ترقی اور خوشحالی کے لئے یہ ’’معمولی ‘‘اور’’حقیر‘‘ قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں۔ بھینٹ دیئے اور نذر اتارے بغیر بغیر کوئی کام ہوتا ہے کیا؟ویسے بھی آپ پاکستانی بہت ہمت اور حوصلے والے ہیں ،کبھی آپ اسلام کے نام پر قربان ہوتے ہیں،کبھی آپ وطنیت کے مقتل میں ذبح کئے جاتے ہیں ،کبھی مسلک اور عقیدے کے نام پر آپ سے قربانی لی جاتی ہے تو اب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو خونِ دل دے کر نکھارنے کا موقع آیا ہے تو جی میں کیسا ملال رکھنا۔جمع خاطر رکھیں ،اب ملک کے جس کونے میں جو بھی واردات ہو ،جہاں بھی لوگ ناحق مارے جائیں ،بم دھماکے ہوں ،خودکش حملے ،کوئی ماتمی جلوس نشانہ بنے یا کسی درگاہ پر حملہ ہو تو آپ اسے فرقہ ورانہ فسادات کہہ کر تکفیری گروہ کے کھاتے میں ڈالنے کے بجائے ان ملک دشمن غیر ملکی طاقتوں کی کارروائی سمجھیں جو اقتصادی راہداری منصوبے کو مکمل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ہاں البتہ بلوچستان کا المیہ یہ ہے کہ اسے وسائل تو آبادی کے حساب سے دیئے جاتے ہیں جو بہت کم ہے مگر لاشیں اور قربانیاں رقبے کے حساب سے حصے میں آتی ہیں۔جب اپنے لوگوں کو اقتصادی راہداری کےلئے قربان ہوتے دیکھتا ہوں تو فیض بہت یاد آتے ہیں۔آپ بھی یہ رجز،یہ نوحہ پڑھئے جو کل سے میرے دل و دماغ پر حاوی ہے:
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہئے اے ارض وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحرا کو گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پُرزے ہوئے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نہ آسودہ ء اقرار ہوئے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بد خواہوں کی
خواب کتنے ترے شہ راہوں میں سنگسار ہوئے
بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
جو مجھ پہ گزری مت اس سے کہو ،جو ہوا سو ہوا
مَبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
لہو کے دامن تو داغ سے دھو،جو ہواسو ہوا
اور آخری دو اشعارملاحظہ فرمائیں جو حاصل کلام ہیں :
ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
تیری محفل کو خدا رکھے ابد تک آباد
ہم تو مہماں ہیں گھڑی بھر کے ،ہمارا کیا ہے


.
تازہ ترین