• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل گورنر سندھ کی تقرری اور پانامہ لیکس(سپریم کورٹ میں) ہر محفل کا پسندیدہ موضوع ہے کہ ناتواں بزرگ کو، اتنا مشکل، منقسم اور مسائل سے دو چار صوبے کا گورنر کیوں مقرر کیا گیا ہے؟ حلف کے چند بول دہرانے میں جن کی یہ حالت ہو گئی، جوں کوئی بوڑھا کاندھے پر گندم کی بوری اٹھائے پہاڑ کی چوٹی تک آ پہنچا ہو۔ ایک اخباری خبر کے مطابق حلف کے بعد وہ اس قدر تھک چکے تھے کہ پروگرام کے مطابق قائد کے مزار پر حاضری کیلئے بھی نہ جا سکے، چنانچہ پوری رات آرام کرنے اور سستانے کے بعد اگلی صبح مزار قائد پر حاضری کیلئے گئے تو مزار قائد کی پہلی سیڑھی کوہ ہمالہ کی طرح حائل ہو گئی اور حاضری دیئے بغیر لوٹ آئے۔ خبر میں یہ نہیں بتایا کہ اس مشقت کے بعد ان پر کیا گزری اور آرام کیلئے کتنے دنوں کا وقفہ دینا پڑا۔ اب وہ وہ کتنے دنوں میں بستر سے اٹھ کر گورنر کی کرسی تک کی مسافت طے کر سکیں گے۔ بنانے والوں نے گورنر کیوں بنایا؟ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ جناب سعید الزماں صدیقی اس بڑھاپے اور بیماری کی حالت میں گورنر کیوں بنے؟ مصحفی نے کہا تھا؎
ڈال دو سایہ اپنے آنچل کا
ناتواں ہوں کفن بھی ہو ہلکا
آنجناب کی ناتوانی کچھ مصحفی سے بھی سوا ہے کہ حلف کے چند بول کہنے میں سانس پھول گئی۔ سابق چیف جسٹس کیلئے عمر اور صحت کی موجودہ صورتحال میں اپنے سابق منصب سے کم تر عہدہ قبول کرنے میں آخر کیا مصلحت تھی؟ شاید یہ کبھی نہ کھل سکے۔ بہرحال یہ منصب سونپنے والوں کیلئے یہ تقرری خالی از علت ہرگز نہیں۔ اس کا کچھ نہ کچھ تعلق’’پاناما‘‘اور ’’ڈان‘‘ لیکس کے ساتھ ضرور رہا ہوگا۔ خواہ یہ محض اشارہ ہو، علامت یا نشان۔
بے گناہ ہونا اور بچ نکلنا الگ چیزیں ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے کبھی اپنی بے گناہی ثابت نہیں کی بلکہ ہمیشہ بچ نکلنے کے راستے تلاش کئے اور ہر بار اس میں کامیاب رہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اب کی بار بر ے پھنسے، مگر …؟
چوری اور رسہ گیری ا ب بھی ہوتی ہے لیکن اب اس فن کی وہ عزت قدر و منزلت اور اہمیت وہ نہیں رہی جو چالیس پچاس برس پہلے ہوا کرتی تھی۔ ہندوستان بھر میں دریائوں کے کنارے آباد قبائل اور برادریوں میں چوری پیشہ بھی تھا، فخر اور جوانمردی کا نشان بھی۔ بعض گھرانوں میں مرد کی شادی اس وقت تک نہیں ہو سکتی تھی جب تک وہ کامیابی کے ساتھ چوری نہ کرے۔ چوری کے تین مراحل تھے۔ اس طرح اور مہارت سے کی جائے کہ گھر کے مالکوں کو صبح ہونے تک خبر نہ ہو پائے، ایسے راستوں پر چالاکی سے مال مسروقہ لے کر آنا کہ پائوں کے نشانات زیادہ دور تک اٹھائے نہ جا سکیں اور اگر چوری کے دوران یا بعد ازاں پکڑے جائیں تو کسی صورت مان کے نہیں دینا۔ نہ چوری کا اقرار کرنا ہے نہ مال مسروقہ کی نشاندہی۔ مال مسروقہ کو چھپانا، ٹھکانے لگانا اور تھانے کچہری میں چوروں کی مدد کرنا یہ سب رسہ گیر کے فرائض میں شامل تھا۔ اس زمانے میں چوری زیادہ تر مال مویشی اور ڈھور ڈنگر کی ہوا کرتی تھی۔ چور ایسے واردات کرتے جب گھر کے مکین اور محافظ رات کے پچھلے پہر گہری نیند میں ہوتے تھے، چور مطلوبہ جانور یا مال چرا کر اس طرح دبے قدموں واپس لوٹتے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ گھر والے صبح بیدار ہوتے تو پھر ڈھنڈیا پڑتی۔ گائوں کے پھرتیلے جوان قرب و جوار میں تیز رفتاری سے تلاش کیلئے نکلتے، جو عموماً چوروں تک نہیں پہنچ پاتے تھے، اس وقت تک وہ طویل فاصلہ طے کر کے مال مسروقہ کو محفوظ ٹھکانوں تک پہنچا چکے ہوتے تھے۔ دن نکلتے ہی ’’کھوجی ‘‘کو بلایا جاتا، تھانے میں اطلاع سے اہم کام ’’کھوجی‘‘ کے ذریعے لٹیروں کے ٹھکانے کا کھوج لگانا ہوتا تھا۔ تھانے یا پنچائیت کا کام مال کے کھوج لگنے اور ڈھونڈ لئے جانے کے بعد شروع ہوتا۔ ’’کھوجی‘‘ جانوروں کے ’’باڑے‘‘ سے چور کے قدموں کے نشان اور مویشی کے ’’کھر‘‘ کی اچھی طرح جانچ کرنے کے بعد ’’کھرے‘‘(قدموں کے نشان) کے ساتھ چلتے ہوئے سمت کا تعین کرتا، سمت کا تعین ہونے کے بعد اس کی رفتار میں تیزی آ جاتی، اس لئے کہ انہیں اپنے کام میں ایسی مہارت اور نشانات کی پہچان اتنی گہری تھی کہ وہ ان قدموں اور کھروں کے نشانات دوسرے قدموں کے نشان سے بالکل الگ اور واضح پہچان سکتا تھا۔ چور اپنی ذہانت سے قدموں کے نشانات مٹانے، کنفیوژ کرنے اور پیچھا کرنے والوں کو راہ سے بھٹکانے میں صرف کرتا اور کھوجی اپنی مہارت اور پہچان پر بھروسہ کر کے چور اور مال مسروقہ تک پہنچ جانے میں لگا رہتا۔ چور حضرات ممکن حد تک گمراہ کرنے، نشان مٹانے، ایسی راہوں پر جانے کی کوشش کرتے کہ ان کے قدموں کے نشان اٹھائے نہ جاسکیں۔پکی سڑک پر جانا، دریائوں کے پار اترنا اور ایسے راستوں سے آگے بڑھنا جہاں چراگاہیں ہوں تاکہ نشانات مٹ جائیں یا خلط ملط ہوں کہ کھوجی راہ بھٹک جائے یا اپنی سمت کھو بیٹھے۔ ساری کوششوں اور چالوں کے بعد جب اسے یقین ہوتا کہ وہ خطرے کی حدوں سے نکل آیا ہے اور یہاں تک کھوجی ’’کھوج‘‘ نہ پا سکے گا، پھر بھی ایک آدھ فیصد امکان باقی رہتا کہ شاید پیچھا کرنے والے ان کی ساری کوششوں کے بعد پھر بھی نشان پا جائیں تو اب منزل کے قریب آ کے ’’چور بھائی‘‘ نشان قدم کے قریب کوئی خاص نشان بناتے جو اس بات کی علامت ہوتی کہ وہ کھوجی کی مہارت کو تسلیم کرتے ہیں چنانچہ وہ مہربانی اور احسان کرتے ہوئے ہماری راہ چھوڑ دے، مال میں اس کا حصہ اور اس کے احسان کا بدلہ اس کے گھر پہنچا دیا جائے گا۔ چند ’’کھوجی‘‘ ہی ایسے تھے جو اس تعریف اور تحریص سے بچ رہتے، جو وارداتیے اور ان کے طاقتور مال دار رسہ گیروں کی طرف سے کی گئی ہوتی۔ یہ چور اورکھوجی کی لیاقت اور مہارت کا دلچسپ مقابلہ تھا جو چالیس پچاس برس پہلے دیہاتی زندگی میں عام پایا جاتاتھا، اب بھی موجود ہے لیکن بعض خاص افراد اور علاقوں تک محدود ہو کے رہ گیا ہے۔

.
تازہ ترین