• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ نظر بد سے بچائے، گوادر سے کام شروع ہو گیا ہے۔ میرے لئے گزشتہ اتوا ر’’سنڈے گوادر‘‘ تھا۔ اتوار کو گوادر میں پورا میلہ لگا ہوا تھا اور اس میلے کےہیرو جنرل راحیل شریف تھے۔ تقریب کےدوران چینی سفیر یا چینی نمائندے نے جتنی مرتبہ جنرل راحیل شریف کا تذکرہ کیا وہاں موجود چینی خوب تالیاں بجاتے ہے۔ یقینی طور پر پاکستان کےدشمنوں کویہ تالیاں ناگوار گزرتی ہوں گی۔ چونکہ تقریب کے میزبان جنرل راحیل شریف تھے، انہوں نے بھرپور عزت افزائی کی، اس پر میں ان کا شکرگزارہوںکہ انہوں نے روزنامہ جنگ کے کالم نگار کو کھانے کی مرکزی میز پر بٹھایا۔ اس میز پر سیاستدان تھے یا پھر فوجی افسران، اکلوتا اخبار نویس یہ خاکسارتھا۔ میرے دائیں جانب بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ حمید درانی اور ہمدم درینہ میر حاصل بزنجو تھے۔ حاصل بزنجو پورٹس اینڈ شپنگ کے وزیر ہیں جبکہ میر ےبائیں جانب جنرل (ر) ناصر جنجوعہ اور کور کمانڈر کوئٹہ جنرل عامر ریاض تھے۔ میری ان سے گپ شپ جاری تھی کہ ایسے میں دوست اور بھائی جنرل عاصم سلیم باجوہ آئے۔ اونچی آواز میں سلام کے بعد میرا نام پکارتے ہوئے کہنے لگے..... ’’شکر ہے آپ آگئے ۔ ہمیں آپ کا بہت انتظارتھا.....‘‘ میں نے ان سے کہا کہ آئی ایس پی آر کے کرنل شفیق نے لمحہ بہ لمحہ میرا خیال رکھا ہے۔آپ کے انتظامات زبردست ہیں۔ آرمی چیف کی طرف سے پیش کردہ یادگاری شیلڈ میرے لئے اعزاز ہے کیونکہ جنرل راحیل شریف پرپوری قوم فخر کرتی ہے۔ دنیا ان کی معترف ہے۔
خواتین و حضرات! میں جنرل راحیل شریف کی خصوصی دعوت پر گوادر گیا یقیناً اس میں جنرل عاصم باجوہ کی محبتوں کا دخل بھی تھا۔ جنرل باجوہ کمال کے آدمی ہیں۔ انہوں نے میڈیا میں جدید ترین چیزوں کےاستعمال سے آئی ایس پی آر کو چار چاند لگا دیئے۔ وہ اپنے کام کے دھنی ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ایک زمانہ کرتا ہے۔ خیر اتوار کی صبح میں گوادر میں تھا۔ وہ گوادر جس سے پاکستان کے مستقبل میں تابناکی ہے۔ ایک قدرتی بندرگاہ وطن عزیز کے مقدر میں تھی۔ قدرت نے پاکستان کو کیسی کیسی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ گوادر جہاں سمندر کا پانی سرمے سے دھلا ہوا ہے۔ قدرت نے وہاں پانی کا رنگ بھی شاندار عطا کیا ہے۔ گوادر میں سمندر بھی ہے، صحرا بھی اور پہاڑ بھی۔ سی پیک منصوبے کے تحت پہلا تجارتی کانوائے پاکستان کے مختلف زمینی راستوں سے ہوتا ہوا گوادر پہنچااور پھر اسے سمندری راستے سے رخصت کردیا گیا۔ رخصتی وزیراعظم کے ہاتھوں سے ہوئی۔ رخصتی میں دعا مولانا فضل الرحمٰن کے حصہ میں آئی۔ خواجہ آصف اور احسن اقبال بھی موجود تھے۔ دونوںکا تعلق میرے آبائی علاقے سے ہے بلکہ بقول حاصل بزنجو چاول والے علاقے سے ہے۔ یہ الگ بات کہ جنرل عامر ریاض کہتے ہیں کہ ..... ’’میرے ننھیال کا تعلق بھی نارنگ منڈی سے ہے۔ چاول تو وہاں بھی بہت عمدہ ہوتا ہے.....‘‘ خیر چاول تو جنرل عامر کے آبائی علاقے کامونکی میں بھی بہت ہوتا ہے۔ پوراگوجرانوالہ ڈویژن چاول کے لئے مشہور ہے اور ضلع شیخوپورہ بھی۔
گوادر میں خوشی کا عالم تھا، بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری بہت خوش تھے۔ خوشی تو ہر پاکستانی کو ہے اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ دنیا کا بڑا معاشی منصوبہ ہے۔ یہ ہزاروں کلومیٹر سڑکوں، ریلویز کے ذریعے سمندروں سے جڑا ہوا ہے۔ چین روزانہ 60لاکھ بیرل تیل باہر سے منگواتا ہے۔ گوادر پورٹ سے پہلے یہ سفر بارہ ہزار کلومیٹر تھا اب گوادر کےطفیل یہ سفر صرف تین ہزار کلومیٹر رہ گیا ہے۔ عمدہ سڑکیں اسے اور بھی کم کرسکتی ہیں۔ جب ایک سڑک وادی ٔ نیلم سے گزاری جائے گی تو سات سو کلومیٹر سفر اور کم ہو جائے گا۔ گوادر پورٹ آبنائےہرمز پر سب سے گہری بندرگاہ ہے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ اس کے دوست چین کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔ چین کو بیس ارب ڈالر صرف تیل کی درآمد میں بچے گا جبکہ پاکستان کو صرف تیل کی راہداری میں پانچ ارب ڈالر ملیں گے۔ گوادر کے باعث چین، امریکہ اور بھارت کی محتاجی سے نکل آئے گا جو اس وقت چین جانےوالے سمندری راستوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ اسی لئے گوادر کی سب سے زیادہ تکلیف امریکہ اور بھارت کو ہو رہی ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی منڈیاں ایشیا ا ور افریقہ ہیں۔ یورپ تو صرف 13فیصد ہے۔ روس اپنی تجارت بھی گوادر کے ذریعے کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پاس دو آبی راستے ہیں۔ ایران کی چا بہار یا پھر گوادر .... چابہار کی گہرائی گیارہ میٹر سے زیادہ نہیںجبکہ گوادر دنیا کی تیسری بڑی بندرگاہ ہے۔ دنیا میں تیل کا دوسرا بڑا ذخیرہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں ہے۔ ان کا انحصار بھی گوادر پر ہوگا۔ روس، وسطی ایشیائی ریاستوںاور چین سے روزانہ 80ہزار ٹرکوں کی آمد و رفت ہوا کرے گی۔ پاکستان کو 20سے 25ارب ڈالرز کی بچت ملا کرے گی اور ظاہر ہے ان روٹس پر انڈسٹری کی بھی بہار ہوگی۔ پاکستان میں روزگار کے دروازے کھلیں گے۔ پاکستان دنیا کی تجارتی منڈیوں میں پل کی حیثیت سے ہوگا۔ ہمارے دشمن یہ سب کچھ روکنےکے لئے دہشت گردی پر انحصار کر رہےہیں مگر ہمارا آپریشن ضرب عضب ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دے گا۔ اگر ہم بنانا جانتے ہیں تو بچانا بھی جانتے ہیں۔ میری تو حکومت سے درخواست ہے کہ وہ براہمدغ بگٹی اور لربیار مری وغیرہ کی شہریت منسوخ کرکے ان کی جائیدادوں کو نیلام کرے اور کچھ ان دونوں قبیلوں کے غریب افراد میں بانٹ دے تاکہ وطن کے غداروں کا نام و نشان نہ رہے۔ ان شا اللہ یہ منصوبہ چلے گا ۔گوادر میں پاک چین دوستی کے گیت سن کر آیا ہوں۔ یہ گیت سلامت رہیںگے۔
گوادر سے واپسی ہوچکی تھی۔ میں دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا۔ چاند اپنے جوبن پر تھا کہ خبر آئی جہانگیر بدر ہم میں نہیں رہے۔ دل ٹوٹ کے رہ گیا کہ پاکستانی سیاست کا ایک چاند، چاندنی رات میں جدائی دے گیا۔ برسوں پر محیط دوستی موت نے توڑ دی۔ وہ میرا خوبصورت دوست تھا ۔ ’’گورو جی کیا ہورہا ہے، کیا ہونے جارہا ہے ‘‘بلکہ ایک دن جب مسلم لیگ ق کے مرکزی رہنما اجمل وزیر نے مجھے گوروجی کہا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کو جے بی کہاں مل گیا ہے۔ یہ لفظ تو صرف جے بی کہا کرتا تھا۔ جہانگیر بدر پاکستان میں نظریاتی سیاست کی آخری تصویروں میں سے ایک تصویر تھے، ان کا لب و لہجہ ان کے ساتھ چلا گیا۔ رنگ محل میں پیدا ہونے والے نے زندگی میں رنگ بھر دیئے۔ وہ آٹھویں کلاس میں تھا تو پہلی مرتبہ گرفتار ہوا۔ پھر گرفتاریاں، کوڑے، جیلیں اس کا مقدر بن گئیں۔ اسے اقتدار بھی ملا مگر اس نے اقتدار کے لئے کبھی بھی نظریاتی سیاست کو ترک نہیں کیا۔ وہ وفاقی وزیر رہا، گورنر رہا، سینیٹر رہا مگر یہ سارے عہدے اسے نظریاتی سیاست کی بدولت نصیب ہوئے۔ اس نے کتابیں بھی لکھیں، اخبارات میں مضامین بھی لکھے ۔ وہ پیپلزپارٹی کامرکزی سیکرٹری جنرل بھی رہا۔ ایک عرصے تک پارٹی کا صوبائی صدر رہا، آج نوید چودھری افسردہ ہوگا پرانا دوست بچھڑ گیا۔ جس وقت بچھڑنے کی خبر آئی تو مجھے روبینہ قائم خانی اور سسی پلیجو کہنے لگیں..... ’’کیا کمال کا بندہ تھا جہانگیر بدر ، کمال سیاستدان تھا.....‘‘ آخر میں پروفیسر سعدیہ بشیر کا شعر آپ کے ادبی ذوق کی زندگی کے لئے؎
رنگ بھرنا پڑ گئے جو وقت کی زنبیل میں
کیا نہیں گزری تھی دل پر شوق کی تکمیل میں


.
تازہ ترین