• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر اوباما کی تبدیل شدہ افغان پالیسی … رحیم اللہ یوسف زئی

SMS: #RYC (space) message & send to 8001
صدر باراک اوباما آخر کار اپنے فوجی کمانڈروں، رپبلکن سیاست دانوں اور قومی سلامتی کے ماہرین کے دبائو میں آ ہی گئے ۔ اُنھوں نے افغانستان سے مکمل انخلا کے اعلان کردہ منصوبے میں تبدیلی کرتے ہوئے امریکی فورسز کو دیر تک یہاں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان میں سیکورٹی کی ابتر ہوتی ہوئی صورت ِحال کی وجہ سے یہ دبائو پہلے سے ہی موجود تھا، لیکن جب اٹھائیس ستمبر کو طالبان نے تین لاکھ آبادی رکھنے والے ملک کے چھٹے بڑے شہر، قندوزپرتیز رفتاری سے حملہ کرکے قبضہ کر لیا تو صورت ِحال بے حد سنگین ہوگئی۔
اس سے پہلے کچھ رپورٹس منظر ِعام پر آئی تھیں کہ اوباما انتظامیہ پنٹاگون کے مشورے سے دستوں کی واپسی کے فیصلے پر نظر ِ ثانی کررہی ہے ، جبکہ افغانستان میں امریکی دستوں کی کمان کرنے والے جنرل جان کیمبل نے زمینی حالات کی سنگینی بھانپتے ہوئے پلاننگ میں کچھ ترمیم کرنے کا بھی عندیہ دیا ، لیکن طالبان کے قندوز شہر پر قبضے نے صدر اوباما کو مجبور کیا کہ وہ افغانستان میںموجود امریکی دستوں کے فوری انخلا کے منصوبے پر نظر ِ ثانی کرتے ہوئے انخلا کے عمل کو سست کردیں۔ اس طرح طالبان کے جارحانہ ارادوں نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ صدر اشرف غنی اور سی ای او، ڈاکٹر عبداﷲ کی کمزور حکومت کے ساتھ کھڑا ہوا۔
نئے اوباما پلان کے مطابق 2016 کے عرصے کے دوران 9,800 فوجی دستے افغانستان میں موجود رہیں گے۔ اس سے پہلے منصوبے کے مطابق اوباما کے جنوری 2017 میں اقتدار چھوڑنے تک صرف ایک ہزار فوجی دستے کابل کے امریکی سفارت خانے میں موجود رہنے تھے، لیکن اب 2017 میں بھی 5,500 فوجی دستے موجود رہیں گے اور اُنہیں کابل، بگرام، قندھار اور جلال آباد میں تعینات کیا جائے گا۔ یہ صدر اوباما ،جنہیں جنگ مخالف صدر کہا گیا تھا اور جن کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے دور میں عراق اور افغانستان سے فوجی دستے واپس بلائیں گے، کی پالیسی میں معکوسی تبدیلی ہے۔ اگرچہ اُنھوں نے عراق کی حد تک اپنا وعدہ نبھایا لیکن افغانستان سے دستوں کی واپسی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اس سے پہلے، 2009 میں اُنھوں نے افغانستان میں بادل ِ ناخواستہ 33,000 اضافی دستوں کی تعیناتی کی منظوری دی تھی تاکہ طالبان کے خلاف جنگ کا مومینٹم بڑھا کر اسے جلد از جلد ختم کیا جاسکے، لیکن وہ منصوبہ کامیاب نہ ہوا۔
اگرچہ صدر اوباما نے دستوں کی تعداد کے بارے میں کی جانے والی حالیہ تبدیلیوں کو’’متعدل اور بامقصد‘‘ قرار دیا لیکن سادہ سے الفاظ میں اس کا مطلب چودہ سالہ جنگ کو مزیدطول دینے کے سوا اور کچھ نہیں۔ افغانستان سے دستوں کی واپسی کا کام دراصل اوباما کے جانشین پر چھوڑ دیاگیا ہے۔ اگر آنے والے انتخابات میں کوئی رپبلکن صدر منتخب ہوجاتا ہے تویہ جنگ مزید طول پکڑتی دکھائی دے گی کیونکہ رپبلکنز صدرا وباما کو ’’قبل از وقت‘‘ دستے نکالنے کی پالیسی پر ہد فِ تنقید بناتے رہے ہیں، کیونکہ، بقول اُن کے، اس کی وجہ سے طالبان بے خوف ہوچکے ہیں۔اوباما انتظامیہ کی اس غیر متوقع پیش رفت کا بنیادی مقصد تو کمزور افغان حکومت کوطالبان کی بڑھتی ہوئی جارحانہ کارروائیوں اورکہیں زیادہ انتہا پسند گروہ، داعش سے بچانا ہے۔
اس فیصلے پر افغان حکومت نے بھی سکون کاسانس لیا ہے کیونکہ وہ بھی دستے نکالنے کے فیصلے پر نظر ِ ثانی کی درخواست کررہی تھی ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب افغانستان میں 150,000 غیر ملکی فوجی دستے موجود تھے تو وہ پوری قوت استعمال کرنے کے باوجود طالبان کو شکست نہ دے سکے تو اب 14,000 فوجی کیا تیر ما رلیں گے۔ درحقیقت طالبان کو شکست دینا ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ دشوار سے دشوار ترہوتا جارہا ہے۔ حالیہ ماہ کے دوران تبدیل شدہ حکمت ِعملی کے تحت طالبان نے مختلف اضلاع پر قبضہ کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کا نقطہ ٔ عروج قندوز پر حملہ تھا۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اب 385 اضلاع میں سے 37 پر طالبان کا قبضہ ہے جبکہ مزید35 اظلاع پر قبضے کی کوششیںجاری ہیں۔ قندوز کے بعد مزید پندرہ اضلاع طالبان کے قبضے میں چلے گئے، تاہم افغان سیکورٹی فورسز اُن میں سے کچھ کا کنٹرول واپس لینے میں کامیاب ہوگئیں۔
قندوز پر حملے اور قبضے نے افغان قوم کو ہلاکررکھ دیا اور ان کا اپنی حکومت پر اعتماد متزلزل ہوگیا ہے، چنانچہ صدر غنی اور سی ای او ڈاکٹر عبداﷲ کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑنے لگاہے۔ افغان عوام کی اپنے مستقبل سے مایوسی بڑھنے لگی ہے۔ رپورٹس کے مطابق70,000 سے زائد تعلیم یافتہ اور نسبتاً خوشحال افغان شہری ملک چھوڑکر خطرناک اور غیر قانونی طریقہ استعمال کرتے ہوئے یورپ میں آباد ہونے کی کوشش میں ہیں۔ درحقیقت شامی مہاجرین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین افغان ہیں۔ جب افغانستان میں سیکورٹی کی صورت ِحال مزید ابتر ہوگی ، ہجرت کرکے یورپ اور گردو نواح کے دیگر ممالک، خاص طور پر پاکستان جو پہلے ہی تیس لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کررہا ہے، کا رخ کرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔
صدر اوباما کے الفاظ میں، افغانستان میں سیکورٹی کی صورت ِحال انتہائی خراب ، جبکہ افغان سیکورٹی فورسز کی کارکردگی توقع کے مطابق نہیں۔ 2014 کے بعد طالبان کے حملوں میں ڈرامائی اضافہ اُس وقت دیکھنے میں آیاجب زیادہ تر نیٹو دستوںکو افغانستان سے نکال کر سیکورٹی کی ذمہ داری افغان فورسز کے کندھوں پر ڈالی گئی۔ طالبان حملوں کی وجہ سے افغان فورسز کو بھاری جانی نقصان برداشت کرنا پڑا، اس کے علاوہ شہری ہلاکتوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اقوام ِ متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان (UNAMA) کے جائزے کے مطابق 2001ء میں القاعدہ کو تباہ اور طالبان کا تختہ الٹنے کے لئے کئے جانے والے امریکی حملے کے بعد کبھی بھی طالبان کی جارحانہ کارروائیاںاتنی دیکھنے میں نہیں آئیں جتنی حالیہ دنوں میں۔ UNAMA کا کہنا ہے کہ اس نے سیکورٹی کی وجوہ پر ستمبر کے آغاز میں اپنے تیرہ میں سے چار صوبائی دفاتر بند کردیئے ۔ یواین سیکورٹی افسران کے مطابق افغانستان کے نصف کے قریب اضلاع میں انتہائی درجے کا خطرہ موجود ہے۔ ستمبر کے آغاز میں ، قندوز سے پہلے، اقوام ِ متحدہ کی تجزیاتی رپورٹ جنرل جان کیمبل کے کانگریس کے سامنے کئےگئے دعوے، کہ اب افغانستان میں سیکورٹی کی صورت ِحال بہتری کی جانب بڑھ رہی ہے،کو جھٹلاتی ہے۔اگرچہ طالبان سے قندوز کا قبضہ چھڑوا لیا گیاکیونکہ طالبان مستقل بنیادوں پر قبضہ کرنے کے لئے نہیں ، بھاری مقدار میں اسلحہ اورر قم حاصل کرنے اور اپنے قیدیوں کوچھڑوانے کے لئے آئے تھے۔ اس کے بعداُنھوں نے کئی ایک اضلاع اور صوبائی دارالحکومتوں، جیسا کہ غزنی، لشکرگاہ اور میمانا پر حملے کئے۔ یہ حملے زیادہ تر شمالی افغانستان میں دیکھنے میں آئے، جہاں زیادہ تر آبادی غیر پشتون گروہوں، جیسا کہ ازبک، تاجک، ترکمن اور ہزارہ قبائل پر مشتمل ہے اور یہ گروہ روایتی طور پر پشتون طالبان کے مخالف خیال کئے جاتے تھے، لیکن شمال میں طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے اب غیر پشتون دھڑے بھی ان کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔اگرچہ امریکی دستوں کے افغانستان میں قیام کو طول دینے کے اعلان پر طالبان نے سخت رد ِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی دستوں کی واپسی کا فیصلہ اُن (طالبان) کے ہاتھ میں ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حالات سے مجبورہوکر وہ بھی بات چیت کرنے پر آمادگی ظاہر کررہے ہیں، بشرطیکہ اُن کے کچھ مطالبات منظور ہوجائیں۔ ان میں سے بنیادی مطالبہ غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا ہے۔طالبان کے مطالبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے صدر اوباما نے پیغام بھیجا تھا کہ اس مقصد کے لئے اُنہیں افغان حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اوباما انتظامیہ نے افغان کشمکش کے خاتمے کے لئےطالبان سے مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا ، حالانکہ افغان صدر، اشرف غنی نے کابل میں کئے جانے والے تباہ کن بم دھماکوں کے بعد بہت شعلہ انگیز بیانات دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے لئے پاکستان کو زحمت نہیں دیں گے۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ مذاکرات اُس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک اسلام آباد اور کابل کے درمیان عدم ِاعتماد کا خاتمہ نہ ہو۔ یہ اسی صورت ہوسکتا ہے جب صدراوباما اشرف غنی کو پرسکون کریں اور وزیر ِ اعظم نواز شریف سے قیام ِ امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے کہیں اور مذاکرات کا سلسلہ وہیں سے جوڑیں جہاں سے سات جولائی کے مری مذاکرات کے بعد ٹوٹا تھا۔
تازہ ترین