• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاس اینجلس سے نیویارک کا تقریباً2800میل بائی روڈ سفر کرنے کے فیصلے پر سارے راستے ہماری یہ بحث ہوتی رہی کہ ہم نے یہ درست فیصلہ کیا ہے یا کہ غلط، لیکن جب تک ہم تقریباً38گھنٹے کا سفر طے کرکے نیویارک پہنچ گئے میری اور میرے کزن کی متضا د رائے تھی جو وقتاً فوقتاً بدلتی رہتی تھی ہم کہتے کہ ہم نے 2ہزار ڈالرز کا خرچہ کرکے جہاز کے ذریعے یہ سفر کرنے کی بجائے تقریباً9سو ڈالرز میں بائی روڈ خود ڈرائیو کرکے نیویا رک جا نے کا اچھا فیصلہ کیا او خود کو اتنی طویل ڈرائیونگ کے تجربے سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ معقول رقم کی بچت بھی کی ۔رواں سال میں اور میرا کزن امریکہ سیر کیلئے گئے تھے اور لاس اینجلس سے دوبارہ نیویارک آنے کیلئے میں نے لگاتار بارہ سے سولہ گھنٹے ڈرائیونگ کی اور ہمیں احساس ہوا کہ امریکہ میں شاہراہوں کا نظام کتنا شاندار ہے تقریباً65لاکھ کلو میٹرز شاہراہوں کا جال رکھنے والا امریکہ دنیا میں اس حوالے سے پہلے نمبر پر ہے ، امریکہ میں 13ہزار سے زائد ایئرپورٹس ہیں اور بذریعہ جہاز بھی سفر کرتے ہوئے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاتے ہوئے لندن سے نیویارک تک کی پروازکے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور سارے ملک میں 92ایئرلائنوں کے 16ہزار سے زائد ہوائی جہاز ملک کے اندرونی اور بین الاقوامی پرواز کرتے ہیں، ان میں سے پانچ ہزار سے زائد ہیلی پورٹس اس کے علا وہ ہیں، امریکہ دنیا بھر کے ریلوے نظام کے حوالے سے بھی پہلے نمبر پر ہے اور تقریباً3لاکھ کلو میٹرز ریلوے لائنوں پر دن رات ٹرینیں بھاگتی رہتی ہیں ، آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چوتھے بڑے ملک کی آبادی32کروڑ سے زائد ہے اور ہم اس بڑے ملک کی شاہراہوں پر گاڑی دوڑا رہے تھے ، ہمارا گوگل کا نیو یگیشن سسٹم ہماری رہنمائی کررہا تھا اور ہمیں کسی بھی جگہ سفر کے دوران اس حوالے سے کوئی پریشانی نہ ہوئی کہ ہم کس طرف مڑنا یا جانا ہے ، ہر گاڑی والا اپنی اپنی لین میں سفر کرتا ہے ، جگہ جگہ کیمرے لگے ہیں اور ٹریفک کو مانیٹر کیا جاتا ہے ، راستے میں کئی ایسے مقامات بھی آ ئے جہاں ایسا محسوس ہوا کہ ہم پاکستان کے علاقہ غیر میں سفر کررہے ہوں اور ہمیں ان علا قو ں میں محتا ط رہنے کے لئے بھی کہا گیا،اور جب اسی طر ح کے علا قے سے گز رتے ہو ئے ہم ریسٹ ایریاکے ایک ہوٹل میں رات بسر کرنے کیلئے رُکے اور ہوٹل کے ریسپشن پر گئے تو ہوٹل کا عملہ بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے ہمیں ڈیل کررہا تھا وہاں ایک ویرانی ہی ویرانی تھی اور سارے ماحول کو دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ ہم نے نہ صرف بائی روڈ سفر کا فیصلہ کرنے کی غلطی کی ہے بلکہ اس ہوٹل میں رات بسر کرنے کا فیصلہ اس سے بھی بڑی غلطی ہے ، تقریباً چودہ گھنٹے کے سفر اور ڈرائیونگ کے بعد مجھے فوراً نیند کے آغوش میں جانے کی بجائے اس فکر نے نہ سونے دیا کہ غلط ہوٹل میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا ہے ، کزن جس نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر سفر کو انجوائے کیا تھا وہ اب بھی سوشل میڈیا پر مشغول تھا اور میں اس سے اپنی پریشانی چھپانا چاہتا تھا ، نیند مجھ سے کوسوں دور تھی اور کزن کے انکار کے بعد میں نے اکیلے ہی ریستوران میں جا کر کافی یا چائے پینے کا فیصلہ کیا ، بالکل ویران کافی بار میں مجھے فوراً ہی کافی مل گئی میںا سٹول پر بیٹھ کر نہ صرف کافی پی سکتا تھا ، بلکہ کافی بنانے والے کک سے باتیں بھی کرسکتا تھا، ان دنو ں امریکہ کے الیکشن ابھی دور تھے لیکن یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ ہیلری اور ٹرمپ صدارتی امیدوار ہو ں گے لیکن ٹر مپ متضاد بیانات کی وجہ سے وہ ساری دنیا میں ایک متنازع امیدوار کے طور پر جانا جانے لگا تھا ، میں کک سے پوچھاکہ ٹرمپ کیسا شخص ہے تو اس نے کہاکہ اس کی سیاست اور اس کی صدارت ایک بزنس مین اور ایک زور آور پہلوان کی طرح ہوگی اور پہلوان سے زیادہ اگر میں اسے بل فائیٹنگ کا ایک بل قرار دوں تو یہ غلط نہ ہوگا ، میں نے کہاکہ اس کا مطلب ہے کہ ہیلری امریکہ کی نئی صدر ہوگی تو کک جس کی عمر تقریباً60سال کے قریب ہوگی نے تین مرتبہ نو۔۔ نو۔۔ نو کہا اور کہنے لگا کہ ہیلری کے ذریعے ہم امر یکن بل کلنٹن کو دوبارہ امریکہ کا صدر نہیں بنائیںگے، میں نے کہاکیا مطلب ؟ تو پکی عمر کے کک نے کہاکہ بل کلنٹن دو مرتبہ بطور صدر اپنی مدت پوری کرچکا ہے اب ہیلری کو صدر بنانے کا مقصد ایک مرتبہ پھر کلنٹن کو صدر بنانا ہے اور دوسری بات ایک خا تو ن فوج کی کمانڈر انچیف نہیں ہوسکتی۔ میں امریکہ جیسے ملک کے ایک شہری کے یہ تاثرات سن کر حیران تھا جو میری سوچ کے بالکل برعکس تھا، میں نے کافی کا بل دیا دوبارہ اپنے کمرے میں گیا اور رات اسی ہوٹل میںبسر کرنے کی بجائے ایک گھنٹے بعد دوبارہ نیویارک کی طرف سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔بائی روڈ اتنا طو یل سفر کرنا اور ایک امریکن کے منہ سے خا تو ن کی سر بر اہی کے خلا ف ایسی بات سننا میر ے لئے دونو ںعجیب تجر با ت تھے۔



.
تازہ ترین