• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک عجیب بات ہے جب دنیا کیلئے دور سے امریکہ کو دیکھنے اور امریکہ کیلئے دنیا کو دور سے دیکھنے کے دو مختلف زاویے ہوتے تھے۔ کئی امریکیوں کو شاید ساری دنیا کارٹون لگتی تھی اور دنیا کو امریکہ ایسے جیسے اسکی ہالی وڈ کی فلموں یا وڈیو گیمز میں ہوتا ہے۔ یعنی کہ صرف دو ہزار ایک سے پہلے تک کئی امریکیوں کیلئے اسلامی دنیا کا تصور ایک اڑتے قالین اور الف لیلوی داستانوں کی طرح کا تھا۔ اب بھی اگلے دن مجھے ایک اٹلی میں پیدا ہونیوالا اطالوی نژاد بزرگ یہ معلوم کرنے پہ کہ میرا اصل تعلق کس ملک سے ہے مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں دنیا کے نقشے پر پاکستان کہاں تلاش کروں۔ (مجھے خوشی ہوئی میرے جیسے کچھ لوگ ہیں جو گوگل سے بہت پہلے کی پیدوار ہیں)۔ میں اور یہ بزرگ ا سوقت "فرینڈز ٹیورن" نامی ایک بار کے باہر کھڑے تھے جو نیویارک کے کوئنز کے علاقے میں مشہور روزویلٹ ایونیو پر واقع ہے۔ میں نے اس اطالوی بزرگ سے کہا: زیادہ دور کیوں جاتے ہیں آپ۔ بس اگلی اسٹریٹ کے موڑ پر دائیں جانب جیکسن ہائیٹس ہی پاکستان ہے۔ جیکسن ہائیٹس جو ایک چھوٹا جنوبی ایشیا ہے جہاں پاکستانی، ہندوستانی، بنگلہ دیشی، تبتی، اور نیپالی لوگ ہیں۔ جہاں چند برس قبل خلائی شٹل کے حادثے کا شکار ہوجانیوالی بھارتی نژاد خلانورد کلپنا چاولہ کے نام پر ایک روڈ منسوب ہے ۔ اسی روڈ پر ڈائیورسٹی پلازہ ہے جہاں اس دن امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ میں صدر منتخب ہونے کے خلاف مظاہرہ ہورہا تھا جس میں دیسی جنوبی ایشیائیوں سے زیادہ سفید فام لوگ بھی بچوں سمیت شریک تھے۔ ’’ٹرمپ ہیٹ ڈائیورسٹی‘‘ ٹرمپ مختلفیات سے نفرت کرتا ہے" اس احتجاجی مظاہرے کا موضوع تھا۔
حیرت ہے کہ نیویارک کا یہی کوئنز تھا جہاں ڈونلڈ ٹرمپ پلا بڑھا ہے۔ کوئنز جو نیویارک کا سب سے زیادہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے اور کئی مختلف دیسوں سے آئے ہوئے لوگوں شاید اڑتالیس قوموں کا مسکن ہے۔ نیویارک کا سب سے زیادہ مختلف اقسام آـبادیوں کا علاقہ۔ جب آپ یہاں کے فلشنگ یا مین اسٹریٹ (جہاں یہ کہنا زیادہ مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ بیجنگ سے زیادہ چینی لوگ بستے ہیں کہ دکانوں کے سائن بورڈ چینی زبان میں ہیں) سے ٹائمز اسکوائر تک جانیوالی ٹرین سات پر سفر کریں گے تو آپ کو درست معنی میں نیویارک کا ایک بین الاقوامی چہرہ نظر آئے گا۔ اسے سندھی میں کہتے ہیں درخت درخت کی لکڑی کےاسی ٹرین کے ڈبوں میں ہوگی ہر جنس اور قوم۔ میں اسی لئے تو اس ٹرین سیون یا ٹرین سات کو نیویارک کی اورینٹ ایکسپریس کہتا ہوں ۔ نیویارک کی اس اورینٹ ایکسپریس کا ایک مشہور اسٹاپ جیکسن ہائٹس بھی جہاں پاکستانی بستے ہیں۔ تو پس عزیزو غائبستان سے ٹرمپستان تک کا سفر کیسا لگا!
یقین ہی نہیں آتا کہ اتنے ڈائیورسٹی یا مختلفیات رکھنے والے امریکی علاقے کا پلا بڑھا ہوا بچہ بڑا ہو کر ڈونلڈ ٹرمپ بھی بن سکتا ہے اور وہ بھی ایسے خیالات کا حامل جسکا اظہار وہ اپنی پوری انتخابی مہم میں نہ فقط کرتا رہا بلکہ اس مہم والے انتخابات کے نتائج میں وہ کامیاب بھی ہوا۔اور اب دنیا ہے کہ امریکہ کو ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان سے دیکھ رہی ہے۔ اور ایک خوف سے دیکھ رہی ہے۔ یعنی کہ کیا اب امریکہ ایسا ہی ہوگا جیسا وڈیو گیموں میں ہوتا ہے۔ وار گیمز میں! نیویارک کے ایک دلبر لکھاری نے کتنا ٹھیک کہا ہے کہ ہم امریکیوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کو انکی کہی ہوئی ہر بات غلط ثابت کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کے سب سے با اثر ترین شخص اور اب رہنما کےطور پر دنیا میں طاقت اور جمہوریتوں کی لیڈرشپ کے منبع وائٹ ہائوس کے سنگھاسن پر براجمان ہوگا یہ نہ تم نے سوچا تھا نہ میں نے، نہ ہی امریکہ کے میڈیا اور دنیا کے اکثر تجزیہ نگاروں نے۔ لیکن یہ اس خاموش امریکی اکثریت کا وحشت خواب میں ضرور تھا جس نے ووٹوں کے ذریعے اپنے اسی مہم جویانہ خواب کو سچ ثابت کیا۔ کہ یہ بھی کر کے دیکھتے ہیں- میرے لئے یہ ایسا ہی ہے جیسے پاکستان کا کوئی ارب پتی بلڈر کل کو ملک کا وزیر اعظم بن جائے۔ لیکن یہ بھی تو جمہوریت کا حسن ہے کہ نظر بٹو۔ یا دنیا میں ہر جگہ دائیں بازو کی لہر ؟ ایک بھارتی دانشور نے اپنے امریکی دوستوں سے کتنا خوب کہا کہ ’’پھر بھی ہماری طرح تمہارے پاس وہ صدر منتخب ہوکر نہیں آیا جو (مودی کی طرح) نسل کشی میں ملوث رہا ہو‘‘۔
امریکہ کی یہ خاموش اکثریت ان چھوٹے شہروں کی محنت کش سفید فام آبادی ہے جو ان امریکی ریاستوں میں آباد ہے جنہیں امریکی انتخابات کے حوالے سے کانٹے کے مقابلے والی ریاستیں یا فیصلہ کن ریاستیں عرف عام بیٹل فیلڈ اسٹیٹس کہتے ہیں۔ یہ ریاستیں جو پہلے امریکی صدر اوباما کے دونوں بار انتخابات تک نیلی ریاستیں ہوا کرتی تھیں ( کہ نیلا نشان ڈیموکریٹک پارٹی کا ہے) اب یہ چھوٹے شہروں پر مشتمل امریکی ریاستیں سرخ ریاستیں ہوگئی ہیں۔ یعنی کہ سرخ نشان ری پبلکن پارٹی کا۔ اور پھر وہ ’’الیکٹورل کالج ‘‘ والا نظام کہنہ جسکے ہی ووٹوں کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ منتخب صدر امریکہ بن کر آیا ہے۔ ایسا سمجھیں جیسے صدر ایوب کا بی ڈی نظام تھا۔ الیکٹورل کالج جس میں تمام ووٹ گنے نہیں جاتے بلکہ غلامی کے زمانے میں جنوبی ریاست کے امریکہ کی آئینی اساس رکھنے والے آبا ئو اجداد نے بنایا تھا کہ انکا خیال تھا کہ ہر کوئی ایرا غیراامریکی صدر اپنے ووٹ یعنی پاپولر ووٹ سے منتخب نہیں کرسکتا۔ بس چنے ہوئے لوگ کریں گے جن کو یہ ریاستیں چنا کریں گی۔ وگرنہ اگر ووٹوں کی مقبول تعداد سے دیکھیں تو پاپولر ہیلری کلنٹن ہیں۔ یعنی کہ عوام کا اکثریتی ووٹ ہیلری کلنٹن کو گیا۔ مثال کے طور پر کیلیفورنیا ریاست کی ساٹھ فی صد آبادی کے یعنی ٹرمپ کے مقابلے میں پچیس لاکھ سے زائد ووٹ ہیلری کلنٹن کو پڑے۔ اسی طرح تمام امریکہ کی اکاون فی صد خواتین کے ووٹ ہیلری ہی کے حق میں پڑے۔ اسی لئے تو انتخابات کے دن کئی خواتین و مرد انتھونی بی سوسن کی قبر پر حاضری دینے گئے تھے جس خاتون نے انیسویں صدی میں خواتین کے ووٹوں کے حق میں جدوجہد کی تھی۔

.
تازہ ترین