• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تعلیم اور صحت ہر ریاست کی بنیادی ترجیحات ہوتی ہیں۔مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں کسی بھی حکومت کی بنیادی ترجیح تعلیم اور صحت نہیں رہی۔ملکی تاریخ کا ایک طویل ا دوار آمروں کے حصے میں آیا لیکن کسی نے بنیادی سہولتوں کو عوام تک نہیں پہنچایا۔جمہوری حکومتوں کی بات کی جائے تو ہم نے ماضی میں کسی منتخب حکومت کو اتنا وقت نہیں دیا کہ وہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے موثر اور جامع پالیسیاںبنا تی۔ جب ملک میں ریوڑیوں کے حساب سے وزرائے اعظم تبدیل ہونگے تو بھلاکیسے تعلیم ،صحت ،انرجی سمیت دیگر معاملات کا ذمہ دار جمہوری حکومتوں کو ٹھہرایا جاسکتا ہے۔صد شکر ! آج پاکستان میں مسلسل دوسری جمہوری حکومت اپنی مدت مکمل کرنے کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔سابق دور میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی خرابیاں اپنی جگہ پر مگر جمہوریت کے تسلسل کی وجہ سے آج ادارے مضبوط ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے کہ کرپٹ جمہوری حکومتوں سے ملک کمزور ہوجاتے ہیں۔مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ہر جمہوری دور میں کرپشن اور بدانتظامی کے باوجود سسٹم مضبوط ہورہا ہوتا ہے اور آنے والے ادوار میں عوام سبق سیکھ کر بہتر چناؤ کرتے ہیں۔کرپشن اور بیڈ گورننس کے سنگین الزامات پر عوام نے ملک کی مضبوط سیاسی جماعت کو صرف ایک صوبے تک محدود کرکے رکھ دیا۔یہی جمہوریت کی خوبصورتی اور خود احتسابی کا عمل ہے۔
آج ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ماضی کے مقابلے میں پہلی دفعہ کسی حکومت نے صحت کو اولین ترجیح بنایا۔وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے کے اسپتالوں کو بہتر بنانے کے لئے ہنگامی اقدامات شروع کئے۔کئی دہائیوں بعد پنجاب میں نئے اسپتالوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ضلعی اور تحصیل کی سطح پر خطیر فنڈز سے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بہتر بنائی گئی، ڈاکٹرز کی تنخواہوں میں اضافہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔اسی پنجاب میں امراض قلب کے اسپتالوں کو عالمی معیار کے مطابق نہ صرف بہتر کیا گیابلکہ امرا نے بھی اپنے علاج کے لئے انہی اسپتالوں پر اعتماد کا اظہار کیا۔لیکن اگر کہا جائے کہ صوبے میں صحت کے انتظامات مثالی ہوگئے ہیں تو یہ قبل از وقت ہوگا۔ابھی اس شعبے میں بہت کام کرنا باقی ہے۔اس کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب کے ڈاکٹرز کو اپنے آپ کو بہتر کرنا ہوگا۔یہ خاکسار چونکہ خود میڈیکل کی تعلیم کو خیر باد کہہ کر شعبہ صحافت سے منسلک ہوا ۔اس لئے ڈاکٹرز کے مسائل اور خامیوں کو بہتر بیان کرسکتا ہوں۔بچپن میں والد محترم کے ہمراہ جب بھی کسی سینئر جج یا بیوروکریٹ کے گھر جانا ہوتا تھا توان کے منہ سے برملا نکلتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب! ہماری خواہش ہے کہ ہمارا بھی بیٹا /بیٹی آپکی طرح میرٹ پر نمبر لے کر ڈاکٹر بنے۔مجھے یاد ہے بچپن میںعدالتی کارروائی دیکھنے کا خاصا شوق ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ہائیکورٹ میں میڈیکل بورڈ کے حوالے سے کیس میں ضد کرکے والد صاحب کے ہمراہ چلا گیا۔جج صاحب! تمام کیسز معمول کے مطابق سنتے رہے۔مگر جب میڈیکل بورڈ کا کیس آیا تو جج صاحب نے باآواز بلند کہا کہ ڈاکٹر صاحب! آپکو روسٹم پر آنے کی ضرورت نہیں ہے ،آپکا موقف ہم چیمبر میں بیٹھ کر لے لیں گے۔چیمبر میں جج صاحب کہنے لگے کہ ہم ڈاکٹرز کا بڑا احترام کرتے ہیں ۔اس لئے مجھے مناسب نہیں لگا کہ قوم کا مسیحا روسٹم پر آکر وضاحت دے۔ڈاکٹرز ہمیشہ میرٹ اور شفافیت سے فیصلے کرتے ہیں،عدالت آپ کا دفاع خود کرے گی۔یہ اس شعبے کی عزت کا عالم تھا ،جو اس طالبعلم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔مگر آج مٹھی بھر طبقے نے ڈاکٹرز کی عزت خاک میں ملادی ہے۔تمام ینگ ڈاکٹرز پر تنقید کرنا مناسب نہیں مگر روس ،چین سمیت وسط ایشیاسے پڑھ کر آنے والے ڈاکٹرز کی اکثریت نے ذاتی مفادات کی خاطر مختلف تنظیمیں بنالی ہیں۔یہ وہ ڈاکٹرز ہیں جو پڑھتے چین اور روس میں ہیں مگر انہیں وہاں کوئی ہاؤس جاب نہیں کرنے دیتا،یعنی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ وہ ممالک اپنے کسی مریض کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے اوریہ یہاں آکر اچھی تنخواہوں پر ہاؤس جاب بھی کرتے ہیں اور مظلوم مریضوں پر تشدد بھی۔ڈاکٹرز کے حلف میں شامل ہوتا ہے کہ وہ کسی مریض کے علاج میں بددیانتی نہیں کریں گے اور یہاں میو اسپتال میں مریض علاج کروانے جاتا ہے تو اسے کچھ ینگ ڈاکٹرز اتنا مارتے ہیں کہ وہ پچھلے دو ہفتوں سے اپنے لواحقین کے ہمراہ شیخ زیداسپتال میں ینگ ڈاکٹرز کی ہاکیوں کے زخموں پر مرہم لگوارہے ہیں۔
ماضی میں کبھی کسی نے سنا نہیں تھا کہ پی ایم اے یا سینئر ڈاکٹر ہڑتال پر جانا تو دور کی بات ہے۔کسی حکومتی احکام کے خلاف عدالت بھی گئے ہوں۔آج چھوٹے چھوٹے معاملات کو جواز بنا کر ہڑتالیں کرنا،ایمرجنسی بند کردینا معمول بن چکا ہے۔گڈگورنس کے حوالے سے شہبازشریف کے ناقد بھی آج ان کے معترف ہیں۔تحریک انصاف،مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی سمیت سیاستدانوں کی اکثریت ان کی انتظامی صلاحیتوں کی معترف ہے۔کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کہتی ہے کہ "لاہور میں خوبصورتی اور ہریالی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ یہاں مصنوعی بارش کرواتے ہیں"شہباز شریف سے ان کے سیاسی مخالفین آج جتنا بھی اختلاف کریں مگر پنجاب کی گڈگورننس ان کے سیاسی کیرئیر کی بہت بڑی کامیابی ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے گزشتہ چند سالوں کے دوران پنجاب میں تمام محکموں کو درست کرنے کے لئے توانائیاں خرچ کیں۔بیوروکریسی ہو یا پھر پولیس گردی۔ہر جگہ شہباز شریف کی رٹ نظر آئی۔لیکن اگر کوئی شعبہ ٹھیک نہیں کرسکے تو وہ یہ ینگ ڈاکٹرز ہیں۔اپنے خاندان میں کئی ڈاکٹرز ہونے کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آج ینگ ڈاکٹرز ایک مافیا کا روپ دھار چکے ہیں۔کسی بھی ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی مگر چند مٹھی بھر عناصر کا پورے شعبے کو بدنام کرنا بھی قابل قبول نہیں ہے۔کچھ ڈاکٹرز کے سنجیدہ مسائل بھی ہیں،جنہیں حل کرنا ریاست کا فرض ہے۔گریڈ 18,19اور20کی ہزاروں خالی پوسٹوں پر سالہا سال سے ترقی نہ ہونا بھی تکلیف دہ ہے۔جونیئر ڈاکٹرز کیلئےاین ٹی ایس متعارف کراکر سینئر ڈاکٹرز کی حق تلفی کرنا بھی غلط ہے ۔تازہ ایف ایس سی اور ایم بی بی ایس کرنے والے ینگ ڈاکٹرز باآسانی این ٹی ایس ٹیسٹ میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر جن سینئر ڈاکٹرز نے 20،20سال پہلے نصابی کتابیں پڑھی تھیں ،میتھ اور اینا لٹیکل پڑھے ہوئے انہیں 30سال ہوگئے ہیں تو ان کا کیا قصور ہے؟ گورنمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ سینئر افسران کے انٹرویو پینل کے ذریعے قابل اور ایماندار ڈاکٹرز کو انتظامی عہدوں پر تعینات کرے مگر جب آپ این ٹی ایس وغیرہ متعارف کراتے ہیں تو سینئر ڈاکٹر پیچھے رہ جاتے ہیں اور یہی ینگ ڈاکٹرزاسپتالوں میں انتظامی عہدوں پر براجمان ہوکر مزید ریاستی رٹ کو کمزور کرتے ہیں اور اس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ڈاکٹرز کے جائز مطالبات پورے ہونے چاہئیں مگر ہر معاملے کے حل کا ایک مہذب طریقہ ہوتا ہے۔مگر بدقسمتی سے ینگ ڈاکٹرز اس سے لاعلم ہیں۔

.
تازہ ترین