• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زمانہ طالبعلمی میں پڑھا تھا کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہوا کرتی ہے پھر انکشاف ہوا کہ جمہوریت جن چار ستونوں پر ایستادہ ہوتی ہے ان میں مقننہ،انتظامیہ اورعدلیہ کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ذرائع ابلاغ معاشرے کے لئے حواس خمسہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے آپ علاقائی و ملکی اور بین الاقوامی حالات کو دیکھتے،پڑھتے،سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔ مگر آج معلوم ہوا کہ اخبارات کی حیثیت تو ردی کے ان پلندوں کی سی ہے جنہیں ایک روز ہم پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اگلے ہی روز ان میں پکوڑے بیچے جا رہے ہوتے ہیں۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ بات تو نئی نہیں مگر انداز نیا ضرور ہے اس لئے چوٹ بھی تازہ محسوس ہو رہی ہے۔ میں جب ملتان میں مقیم تھا اور ایک قومی اخبار میں کالم لکھا کرتا تھا تو رات گئے نشتراسپتال کے سامنے پراٹھے کھانا اور لسی پینا روز کا معمول تھا۔ وہاں اخبارات کا بے دریغ استعمال ہوتا۔ پراٹھا آئل سے شرابور ہوتا،اسے اخبار کے تراشے میں لپیٹ کر دوتین مرتبہ رول کرنے سے چکنائی کم ہو جاتی۔ جب کھانا کھا لیتے تو اخبارات کے تراشے ہی ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کئے جاتے۔ ایک دن ہاتھ صاف کرنے کے لئے اخبار کا ٹکڑا ٹھایا تو اس پر میرا کالم بمع تصویر موجود تھا۔ میں تحیر وتکدر کی کیفیت میں تھا کہ ایک دوست نے معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے لقمہ دیا :’’اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے،اپنے ہی کالم کا تراشا ہاتھ آجانا تو مقبولیت کا ثبوت ہے۔ ‘‘اس حادثے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دُکھ تو سانجھا ہے اور کم وبیش تمام لکھنے والوں کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس اس دن کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور کبھی یہ جاننے کی جستجو نہیں کی میں جس اخبار میں کالم لکھتا ہوں اس میں جلیبیاں بکتی ہیں،پکوڑے یا کچھ اور۔ ہاں البتہ یہ بات ضرور پریشان کرتی تھی کہ اردو اور انگریزی اخبارات کی ردی کا نرخ کیوں مختلف ہے؟مگر چند روز قبل میرے ساتھ عجیب واردات ہوئی۔ میں نے راہ چلتے ہوئے ایک ریڑھی والے سے پکوڑے خریدے۔ ابھی پہلا پکوڑا منہ میں ڈالا ہی تھا کہ اخبار کے تراشے پر نظر پڑی۔ لکھا تھا’’ جس قیدی کو قتل کے مقدمے میں باعزت بری کر دیا گیا تھا،وہ تو کئی سال پہلے دوران حراست فوت ہو چکا ہے‘‘میں نے وہ اخبار کا ٹکڑا سنبھال کر رکھ لیا۔ کچھ دن بعد سڑک پار کرتے ہوئے تازہ تازہ جلیبیاں بنتے دیکھیں تو سوچاکیوں نہ منہ میٹھا کیا جائے۔ ابھی پہلی جلیبی اٹھائی ہی تھی کہ اخبار کے ٹکڑے نے چونکا دیا۔ لکھا تھا’’قتل کے مقدمہ میں پھانسی پانے والے دو افراد جب بری ہوئے تو پتہ چلا انہیں تو پھانسی دی جا چکی ہے‘‘میں نے اس خبر کو نظر انداز کرتے ہوئے ہاتھ صاف کرنے کے لئے ایک اور اخباری تراشہ اٹھایا تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں میرٹ کے برعکس تقرریوں کی خبر میرا منہ چڑا رہی تھی۔ ان ناپسندیدہ تجربات کے بعد تو میرا دل چاہ رہا ہے کہ اخبارات میں پکوڑے بیچنے پر بھی پابندی ہونی چاہئے۔
ویسے تکلف برطرف، اخبارات میں ٹی وی چینلز کی دیکھا دیکھی جو کچھ چھپ رہا ہے،اس کے پیش نظر تو یہ بھی غنیمت ہے کہ تاحال پرانے اخبارات کو پکوڑے بیچنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے ورنہ بعض اداروں کے کاغذات اور دستاویزات تو اس قابل بھی نہیں کہ ان سے پراٹھے خشک کئے جائیں یا پھر ہاتھ صاف کئے جائیں۔ اگر معاملہ اخباری تراشوں اور کتابوں کی بنیاد پر ہی طے کرنا ہے تو پھر اس معاملے میں مسلم لیگ (ن) کو تحریک انصاف پر واضح سبقت حاصل ہے۔ ان کے پاس تو ایسے ایسے مدح سرا اور اٹھائی گیر موجود ہیں جو اپنے ممدوح کو فرشتہ صفت اور معصوم عن الخطاثابت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور بات اخبارات میں شائع ہونے والی چٹ پٹی خبروں پر ہی آگئی ہے تو آپ نے جن برطانوی اخبارات میں شائع ہونے والی اسٹوریز کو پیش کیا ہے انہیں اخبارات میں عمران خان کے حوالے سے شائع ہونے والے اسیکنڈلز کو جمع کر لیا جائے تو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ جس نوعیت کی کتابیں عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنائی گئی ہیں،وہ تو اخباری تراشوں کی بنیاد پر ہی مرتب کی جاتی ہیں اور ان کی حیثیت بارہ مصالحے والی چاٹ سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے جس نوعیت کے اخباری تراشوں اور کتابوں کو شواہد اور ثبوتوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے ان کو تو ردی خریدنے والے بھی قبول نہ کریں۔ جنہوں نے یہ مضحکہ خیز ثبوت عدالت میں پیش کئے ان کی صحت پر تو شاید کوئی فرق نہ پڑے مگر اس کے نتیجے میں ہم ایسے اخبار نویس ضرور شرمسار ہوئے ہیں۔ ایک طرح کی شرمندگی بھی ہوئی ہے اور ایک نیا حوصلہ بھی ملا ہے۔ شرمندگی اس طرح کی ہم جس قرطاس وقلم کو معتبر خیال کرتے ہیں،اس کی حیثیت تو ردی سے بڑھ کر نہیں اور حوصلہ یہ سوچ کر ملا ہے کہ ہم تو خواہ مخواہ پھونک پھونک کر قلم استعمال کرتے اور سوچ سمجھ کر لکھتے رہے ہیں ورنہ جب اخبار کی قسمت میں ہی یہی لکھا ہے کہ اس پر پکوڑے فروخت ہوں تو پھر اس قدر اہتمام کی کیا ضرورت۔ جو چاہے لکھیں،دل کی بھڑاس تو خوب نکالیں۔
وکالت اور سیاست کی طرح صحافت بھی ایک لت ہے جو لگ جائے تو انسان کسی اور کام کے قابل نہیں رہتا۔ اس لئے گزشتہ 16سال کے دوران کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ صحافت کو خیرباد کہہ کر کوئی اور ڈھنگ کا کام کر لیا جائے۔ جب میڈیا پر چائے بیچنے والے کے چرچے تھے تو اسلام آباد کے ایک صحافی نے جل بھن کر ٹوئٹ کی’’صحافت میں آنے سے تو اچھا تھا کہیں چائے کا ڈھابہ کھول لیا ہوتا‘‘میں نے اسے ری ٹوئٹ کیا تو ایک دوست نے ازراہ تفنن پوچھا’’کہیں آپ بھی یہی تو نہیں سوچ رہے؟‘‘میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا،ماسوائے اس کے کوئی اور کام آتا نہیں وگرنہ ضرور کر لیتا۔ مگر اخبارات کی اوقات یا ددلائے جانے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ کیوں نہ صحافت چھوڑ کر شاہراہ دستور کے آس پاس پکوڑوں کا ڈھابہ بنا لوں اور گھٹیا اخبارات کے بجائے ماضی میں نظریہ ضرورت کے شائع شدہ واقعات کے صفحات پر پکوڑے بیچا کروں !!!

.
تازہ ترین