• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حامد میر نے ٹھیک لکھا ہے اور میں نے امریکہ جاکر بھی محسوس کیا ہے کہ امریکہ کی عورتیں نہ باشعور ہوئی ہیں اور نہ بیدار ہوئی ہیں۔ اگر ہوئی ہوتیں تو ہلیری کو ہر ممکن کوشش کرکے جتوادیتیں۔ پوری دنیا کو ایک بیوقوف شخص ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے رسوا نہ کرتیں۔ میں جب بھی امریکہ جاتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ مرد اور خاتون پروفیسر کی تنخواہوں میں بہت فرق ہے جو ہلیری کی تقریروں سے ظاہر ہورہا تھا کہ اب تک جاری ہے اور وہ کہتی تھی کہ میں اس صنفی فرق کو دور کروں گی۔ میں امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پروفیسرز کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے جھنجھلا کر پوچھتی تھی کہ آپ لوگ وائٹ ہائوس کے سامنے دھرنا دیکر اس تفریق کو ختم کیوں نہیں کرواتیں تو وہ ہمیشہ ہنس کر کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں عورتوں کے حقوق کی کوئی انجمن نہیں ہے۔ کبھی عورتوں نے اس سوال پر غور نہیں کیا، جب میں انہیں بتاتی کہ 1960ء میں عائلی قوانین بھی عورتوں نے باقاعدہ جلوس نکال کر حکومت کو مجبور کرکے عائد کروائے تھے اور کتنے ہی سالوں تک احتجاج کرکے غیرت کے نام پر عورت کو قتل کرنے کے خلاف باقاعدہ قوانین بنائے گئے ہیں تو تمام پڑھی لکھی یہ پروفیسرز اپنی لاعلمی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ سچ ہے ویسٹرن ڈریس پہن کر وہ خاتون چاہے یورپ کی ہو برصغیر کی ذہنی بلوغت کی حامل نہیں ہوتی ۔ دفتروں میں کام کرنا ان کی معیشت کی مجبوری ہے۔ بڑوں کو کام کرتے دیکھا ہے، ٹیکسوں میں آدھی تنخواہ کٹتے دیکھا ہے۔ سنگل مدر کا تصور وہیں سے آیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ سرکار نے یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ جس گھر میں وہ رہ رہی ہے اور مرد ان سے علیحدگی اختیار کرلے تو وہ گھر عورت کا ہوجاتا ہے۔ بچوں کا خرچ بھی مرد کو دینا ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ہمارے ملک میں بھی بچوں کا خرچ باپ کو دینا ہوتا ہے، مگر عدالت میں یہ کیس لڑتے لڑتے، عورت بوڑھی اور بچے جوان ہوجاتے ہیں۔
سیاسی طورپر دیکھا جائے تو یہ ایک لمبی چوڑی سازش ہے کہ ایک شخص جس نے سیاست نام کو بھی نہ پڑھی ہو جو مسلمانوں کو ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ برے برے ناموں سے پکارتا رہا ہو، جو شخص علی الاعلان کہتا رہا ہو کہ وہ مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگادے گا جو ہر مسلمان کو داعش سمجھتا رہا ہو اور ہر عورت کے ساتھ زیادتی کرنے کو ایک طرح کا قانونی حق سمجھتا رہا ہو، جس نے کئی شادیاں کی ہوں جس کے منہ سے نہ کبھی کوئی علمی بات نکلی ہو اور نہ اس نے پیسے بنانے کے علاوہ کسی قسم کی اخلاقیات کو قابل توجہ جانا ہو۔ امریکہ کی بدقسمتی کہ وہ شخص امریکیوں کا صدر بن جائے۔ شاید اس لئے روس اور ہندوستان نے ٹرمپ کے صدر بننے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ امریکہ میں کوسیگن جیسے سمجھدار اور نوم چومسکی جیسے فلسفی ہوں، وہاں ایک زمانے میں ریگن جیسا بیوقوف بھی صدر رہ چکا ہے مگر یہاں امریکی اداروں کا نیٹ ورک سمجھ میں آتا ہے۔ وہ ادارے جنہیں ہم ایجنسیاں کہتے ہیں وہ پیچھے سے تار ہلاتے ہیں اور گراموفون کمپنی کے بھونپو کی طرح ان کے صدر بولنے لگ جاتے ہیں۔ میں اتنی دور کیوں گئی، اپنے ملک کی سربراہی سے ہی سبق لے سکتے ہیں ورنہ کبھی ہوا تھا پاکستان میں ہر روز پہلی خبر یہ کہ علاقے میں آج اور دوسرے علاقوں میں کل اہلکاروں کا معائنہ ہورہا ہو اور ان کی چابک دستی کے قصیدے گائے جارہے ہوں، جبکہ یہ خبر بھی نہ ہو کہ چار دن کی چاندنی ہے کہ شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے ۔مزا تو جب ہو کہ بھٹے پہ اینٹیں بنانے والے بچوں کی کہانیاں بھی سنائی جائیں۔ کہیں یہ وہ پیشوا تو نہیں جو حلوہ کھاتا رہا اور اقتدار پہ قابض رہا جب دیکھا دشمن کی فوجیں سر پر آگئی ہیں تو اپنا عصا اور پیالہ اٹھا کر رخصت ہوگیا۔ پاکستان میں بھی تو غلام محمد کی حکومت کو ہمارے افسروں اور فوج کے نگہبانوں نے بھی برداشت کیا تھا۔ اسکندر مرزا جیسوں کو ایوب خان نے رخصت کرکے اپنے وفادار افسروں کے ساتھ نو سال تک حکومت کی تھی مگر امریکہ میں تو ہر چار سال بعد حکومت بدل جاتی ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ مشعل اوباما نے ابھی سے اگلی حکومت میں آنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ چونکہ قانون اور سیاست دونوں اس خاتون نے پڑھے ہوئے ہیں، اس لئے امریکہ کا جو بھی بگڑا ہوا چہرہ آگے ملے گا وہ سنبھال لے گی۔
پاکستان میں آج کل یہ عالم ہے کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو کبھی ایک بدلا ہوا افسر یا بدلی ہوئی کرسی ملتی ہے تو کبھی دوسری۔ اخباروں میں اشتہار ہوتا ہے کہ اب ہر اسکول میں چھ کمرے ہوا کریں گے جبکہ ابھی تک ہم نے دیہات کی پانچ کلاسوں کو ایک کمرے میں بیٹھ کر ایک استاد سے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ہمارے اپنے اسلام آباد کے اسکولوں میں کہیں بھینسیں بندھی ہوئی تو کہیں ٹوٹا ہوا فرنیچر دیکھا ہے۔ ساتھ ہی اعلان نامہ آجاتا ہے کہ اسکولوں میں لیپ ٹاپ دیئے جائیں گے۔ میں چونکہ گائوں جاتی ہوں، ہنستی ہوں کہ جن اسکولوں میں پنکھے اور پانی نہیں وہاں آپ لیپ ٹاپ دے کر کیا کریں گے۔ میری پوتی جب یہ سنتی ہے تو ہنسنے لگتی ہے، ہماری ثقافت یہی ہے۔ میری نانی روٹی پہ سالن رکھ کر کھاتی تھیں اور میری آج کی دیہی بہنیں بھی میری طرح کبھی گڑ رکھے تو کبھی اچار رکھے روٹی کھاتی ہیں۔

.
تازہ ترین