• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے دوسرے دن امریکی تجزیہ کار اور ساتھ ہی دنیا کی اکثر حکومتوں کی طرف سے ظاہر کیے گئے امکانات کے مدنظر ان اندیشوں کو ریکارڈ کیا گیاکہ ٹرمپ کے یہ منصوبے اور پاکستان کے چند پڑوسی ملکوں کی مخاصمت مل کر کسی ایسے طوفان میں نہ تبدیل ہوجائیں جو پاکستان کو اپنے گھیرے میں لے لیں‘ اب اسے بھی ایک ہفتہ گزر چکا ہے‘ اس عرصے کے دوران امریکی صدر کی طرف سے فوری طور پر اعلان کئے جانے والے کچھ انتہا پسندانہ اقدامات اور ساتھ ہی پاکستان کے پڑوس میں ہونے والی کچھ غیر معمولی سرگرمیوں کو دیکھ کر محسوس ہورہا ہے کہ یہ اندیشے بتدریج ایک خاص رخ میں واضح ہوتے جارہے ہیں‘ امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج آنے کے فوری بعد کچھ امریکی اور دیگر ملکوں کے سیاسی تجزیہ کاروں نے رائے ظاہر کی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ انتہا پسندانہ اعلانات چونکہ اس کی الیکشن مہم کا حصہ تھے لہذا ضروری نہیں کہ صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ ان اعلانات پر عمل کرے‘ مگر اب یہ بات عیاں ہوتی جارہی ہے کہ ٹرمپ ان انتہا پسندانہ اعلانات پر عملدرآمد کریں گے ۔ مثال کے طور پر صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے واضح الفاظ میں ان دو اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کا عزم ظاہر کیا ہےکہ ’’امریکہ سے جلد 30 لاکھ غیر ملکی تارکین وطن کو بیدخل کردیا جائے گا‘‘ اورکیلی فورنیا کے گرد دیوار کھڑی کردی جائے گی تاکہ سرحد کی دوسری طرف سے لوگ وہاں نہ آسکیں۔ جہاں تک امریکہ سے غیر ملکی تارکین وطن کو نکالنے کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کا تعلق ہے تو اگر اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو متاثرین کی اکثریت مسلمان تارکین وطن کی ہوگی‘ یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان میں پاکستانی تارکین وطن کی بھی ایک بڑی تعداد ہوگی‘ ان اعلانات پر عملدرآمد ہونے کی وجہ سے اب دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کو اس بات پر بھی یقین ہوچلا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ان اعلانات پر بھی عمل کریں گے جن کے ذریعے انہوں نے اشارتاً ہی صحیح پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دیا تھا اور کہا تھاکہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کریں گے۔اب پاکستان کے پڑوسی ملکوں ہندوستان اور افغانستان میں کچھ ایسی سرگرمیوں کی اطلاعات ملنا شروع ہوگئی ہیں کہ یہ امکانات واضح ہونے شروع ہوگئے ہیں کہ پاکستان خطرات کے گھیرائو میں آنے والا ہے‘ ان دو پڑوسی ملکوں کی کون سی تشویشناک سرگرمیاں ہیں؟ آیئے ذرا ان کا جائزہ لیں۔ وزیر اعظم مودی کا ہندوستان تو کافی عرصے سے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے مگر وہ کافی دنوں سے مسلسل نہ فقط پاکستان کی سرحدوں پر جارحیت کررہے ہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر جو ایک بین الاقوامی متنازع علاقہ ہے‘ وہاں کے عوام پر تشدد کی ساری حدیں پار کردی ہیں‘ اسی طرح اچانک دو دن پہلے دنیا کی واحد صہیونی ریاست اسرائیل کے صدر ایک انتہائی اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ ہندوستان کے ایک ہفتے کے دورے پر پہنچے‘ بدھ کے اخبارات میں یہ خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی ہیں کہ ہندوستان کے وزیر اور اسرائیل کے صدر نے متفقہ طور پر پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دیا اور مشترکہ طور پر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دونوں مل کر پاکستان کا مقابلہ کریں گے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف افغانستان سے آنے والی اطلاعات کے مطابق وہاں گزشتہ دنوں افغانستان کے شہر غزنی میں پانچ چھ مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے سربراہوں کا اجلاس ہوا جس میں امکانی طور پر پاکستان میں دہشت پسندانہ سرگرمیاں شروع کرنے کے سلسلے میں حکمت عملی تیار کی گئی اگر یہ اطلاعات درست ثابت ہوتی ہیں اور یہ سارے عناصر مل کر ایک ایسے طوفان میں تبدیل ہوجاتے ہیں جو پاکستان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں تو پاکستان ان سارے عناصر کا کس طرح مقابلہ کرے گا‘ اس ساری خطرناک صورتحال کا فقط ایک مستحکم اور متحد پاکستان ہی آسانی سے مقابلہ کرسکتا ہے‘ اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں ایک حقیقی جمہوریت کو مستحکم سے مزید مستحکم کیا جائےاور پاکستان میں حقیقی وفاق قائم کیا جائے‘ اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں فقط ایک بڑے صوے کی ’’بالا دستی‘‘ قائم نہ ہو بلکہ باقی تینوں چھوٹے صوبوں کو بھی بڑے صوبے کی سی اہمیت دی جائے‘ اس سلسلے میں ان چھوٹے صوبوں کے ساتھ ماضی میں جو سلوک ہوتا آیا ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں مگر افسوس کہ اس وقت بھی ان صوبوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے‘ حال ہی میں عمران خان کی کال پر اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرنے کے لئے کے پی کے وزیر اعلیٰ کی سربراہی میں جب کے پی کے عوام جلوس کی شکل میں پنجاب سرحد عبور کرنے لگے تو پنجاب پولیس اور وفاقی حکومت کی طرف سے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ اب ’’ٹرمپ طوفان‘‘ کے امڈ آنے کی وجہ سے ہی مرکز اپنے رویے کا جائزہ لے اور اگر وزیر اعظم نواز شریف نہیں تو خاص طور پر پنجاب کے ’’خادم اعلیٰ‘‘ کے پی وزیراعلیٰ اور کے پی کے عوام سے معافی مانگیں، یہ سب کچھ کرنے سے پنجاب حکومت اور وزیر اعظم کی عزت کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھے گی‘ ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان کو بھی حکومت سے بے پناہ شکایات ہیں اور تو اور 18 ویں آئینی ترمیم جو قومی اسمبلی سے اتفاق رائے سے منظور ہوئی تھی پر بھی عمل نہیں کیا جارہا ہے، اگر 18 ویں ترمیم پر جلد عمل نہیں کیا جاتا تو کم سے کم سندھ میں اس کے شدید ردعمل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، میں نے اپنے پچھلے کالم میں یہاں کے کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر خدانخواستہ ٹرمپ عزائم اور پڑوسی ملکوں کی سرگرمیاں مل کر ایک طوفان کی شکل میں پاکستان کا گھیرائو کرتی ہیں تو شاید اس کا پہلا ٹارگٹ سندھ ہو، کیونکہ تقریباً دو تین ماہ پہلے کراچی کے باخبر حلقوں میں یہ اندیشے گردش کرنے لگے کہ ہندوستان اور امریکہ کی مشترکہ اشیر باد سے سندھ کے بڑے شہر کراچی میں کوئی سنگین خانہ جنگی اور خونریزی نہ شروع ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ یہ اندیشے غلط ثابت ہوں، ابھی چند دن پہلے کراچی میں دیواروں پر ’’جاگ مہاجر جاگ‘‘ کے نعرے درج کئے گئے ہیں، ان کی وجہ سے سندھ کے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، اس کے باوجود سندھی دانشوروں کی یہ رائے ہے کہ اس سلسلے میں کوئی بھی شدید ردعمل ظاہر کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اردو بولنے والے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں سے اپیل کی جائے کہ وہ آگے آئیں اور اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سندھ میں اتحاد اور یک جہتی کو تقویت فراہم کریں۔ سندھی دانشوروں کا موقف ہے کہ اب یہاں کوئی مہاجر نہیں، سب سندھی ہیں، وہ سب سندھ کے سپوت ہیں اور سندھ سب کی ماں ہے۔

.
تازہ ترین