• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایم کیو ایم میں جوکھچڑی پک رہی ہے اس کی واضح شکل آئندہ چند ماہ میں ظاہر ہو جائے گی۔ فی الحال تو کچھ لوگوں کی نظریں سابق فومی آمر پرویز مشرف پر لگی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوںکے متفقہ لیڈر ہوسکتے ہیں۔ وہ ایم کیو ایم کی قیادت تو اس وقت ہی سنبھال سکتے ہیں جب وہ پاکستان آنے کی جرات دکھائیں گے۔ موجودہ صورتحال میں اس کا قطعی امکان نہیں۔ جس کی وجہ صرف اور صرف ان کے خلاف فوجداری مقدمات ہیں جن میں سب سے اہم سنگین غداری کا کیس ہے۔ ابھی کل ہی غداری کیس میں ان کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں جائیدادوں کو قرق کر لیا گیا ہے کیونکہ وہ خصوصی عدالت میں حاضر نہیں ہو رہے۔ جونہی عدالت عظمیٰ نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ اس نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا جس کے بعد حکومت نے بھی انہیں باہر جانے سے نہیں روکا تو وہ پاکستان سے چلے گئے یہ کمٹمنٹ دے کر کہ وہ 6ہفتوں کے بعد واپس آ جائیں گے۔ جب مشرف ملک سے باہر گئے اس وقت بھی بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ واپس نہیں آئیں گے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ لہٰذا ایم کیو ایم سخت بحران کا شکار ہے اور اس کے مختلف دھڑے لڑائی میں مصروف ہیں۔ ایک طرف اس کا لندن چیپٹر ہے جس کے سربراہ الطاف حسین ہیں جن کی کراچی اور حیدرآباد میں اب کوئی نہیں سن رہا اور نہ ہی ان کا پاکستان میں کوئی تنظیمی ڈھانچہ موجود ہے۔ جو بھی ڈھانچہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل کھڑا کیا تھا وہ دھڑام سے نیچے گر گیا جب اس کے چند رہنمائوں کو نظر بند کر دیا گیا۔ دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان ہے جس کا یقیناً وجود پاکستان میں ہے۔ تیسرا دھڑا سابق کراچی میئر مصطفیٰ کمال کا ہے جس نے پاک سرزمین پارٹی بنائی ہوئی ہے جو کہ ابھی تک ’’نان اسٹارٹر‘‘ ثابت ہوئی ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقوں کی مدد سے کوشش کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح ایم کیو ایم میں دراڑیں ڈالی جائیں مگر کوئی بڑی کامیابی نہیںہو رہی۔ یقیناً میئر کراچی وسیم اختر کی چار ماہ بعد جیل سے ضمانت پر رہائی سے ایم کیو ایم پاکستان کو تقویت ملے گی اور انہیں ’’رولز آف دی گیم‘‘ کے مطابق ہی کام کرنا پڑے گا جن میں سب سے اہم یہ بھی ہے کہ انہوں نے الطاف حسین سے کوئی تعلق نہیں رکھنا اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ رہنا ہے۔
ہم ہمیشہ سے عمران خان کے بہت سے فیصلوں پر ٹھوس وجوہات کی بنا پر معترض رہے ہیں۔اب انہوں نے ترک صدر ایردوان کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا بائیکاٹ کرکے ایک نئی مثال رقم کی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اپنے سیاسی مخالف کی نفرت میں انہوں نے ملک اور قوم کی عزت پر حملہ کیا ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ جب عمران خان پاکستان کے پرانے دشمن نریندرمودی سے ملاقات درخواست کرکے کرسکتے ہیں تو ہمارے آزمودہ دوست صدر ایردوان کا پارلیمان سے خطاب سننے کو وہ کیوں تیار نہیں ہیں۔ عمران خان نے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر کے دنیا کوکیا پیغام دیا ہے۔ اسلام آباد میں ترکی کے سفیر نے بھی پی ٹی آئی کے رہنمائوں سے ملاقات میں درخواست کی کہ وہ صدر اردوان کے پارلیمان سے خطاب کے بائیکاٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ فیصلے کو عمران خان نے نہیں بدلا۔ وجہ پرانی ہی دہرائی گئی کہ چونکہ وزیراعظم نوازشریف پانامالیکس کی وجہ سے متنازع ہو چکے ہیں لہذا وہ مشترکہ اجلاس میں نہیں جائیں گے۔ عدالت عظمیٰ میں یہ کیس چل رہا ہے جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ کس پیمانے اور اصول کے مطابق وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یہ ساری سیاست اندرونی مسائل پر تو ٹھیک ہے مگر جب صدر اردوان جیسے معزز اور بہترین دوست کا مسئلہ آئے تو اس طرح کے دلائل ناقابل قبول ہیں۔ پارلیمان کا اجلاس نوازشریف کی صدارت میں نہیں ہوتا۔ تمام ممبران کا پارلیمنٹ میں ’’اسٹیک‘‘ برابر ہے۔ ہر ملک کے صدر یا وزیراعظم جو کہ پاکستان کا دورہ کرتے ہیں کو پارلیمان سے خطاب کی دعوت نہیں دی جاتی یہ خصوصی اعزاز صرف چند لیڈروں کیلئے ہی مخصوص ہے جن میں ترکی اور چین جیسے ممالک سر فہرست ہیں۔ اس سے قبل بھی عمران خان نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس جو کہ بھارت کی طرف سے جاری جارحیت اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر ہوا کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔ ان کے فیصلے سے انہیں سیاسی طور پر کچھ حاصل نہیں ہوا تھا مگر بھارت اس پر بہت خوش تھا۔
آخر میں کچھ تبصرہ پی پی پی کے کچھ رہنمائوں کے اس مطالبے اور خواہش پر کہ عدالت عظمیٰ نوازشریف کو بھی اسی طرح ہی نااہل قرار دیدے جس طرح کہ اس نے یوسف رضا گیلانی کو کیا تھا۔ تاہم یہ حضرات اس بات پر غور کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ دونوں کیس بالکل مختلف ہیں۔ ان کے وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت ثابت ہوگئی تھی کیونکہ عدالت کے بار بارحکم کے باوجود بھی انہوں نے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا تھا کہ آصف علی زرداری کے خلاف 60ملین ڈالر کی مبینہ کرپشن کے کیس کو شروع کیا جائے۔ وہ تو گھر چلے گئے مگر 60ملین ڈالر ایسے ہضم ہوئے جن کا اب کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ دوسری طرف نوازشریف ہیں جن کا نام ہی پاناما لیکس میں نہیں ہے مگر پی پی پی چاہتی ہے کہ پھر بھی عدالت انہیں گھر بھیج دے تاکہ دونوں کے ساتھ مساوی سلوک ہو جائے۔ تاہم وزیراعظم کے بچوں حسین اور مریم کا نام دو آف شور کمپنیوں میں آیا ہے اور حسین نے عدالت کو بتا بھی دیا ہے کہ وہ نہ صرف ان کمپنیوں بلکہ لندن کے چار فلیٹس کے بھی مالک ہیں۔

.
تازہ ترین