• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اعتدال اور میانہ روی تو قصے کہانیاں رہ گئے محبت اور نفرت میں حد سے گزر جانا شاید ہمارے ڈی این اے کا حصہ ہے ۔ قارئین جانتے ہیں ترک، ترکی اور ان کی تاریخ سے مجھے کتنی محبت ہے ۔ یہ استنبول ہی تھا جس کی ایک پہاڑی پر کھڑے ہو کر میں نے اپنے چند پیارے دوستوں سے کہا ’’آپ کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ جس نے استنبول نہیں دیکھا اس کے والدین کی ابھی منگنی بھی نہیں ہوئی‘‘ یہ خیرالدین بار بروسا ہی تھا جس کے مجسمے کے راستے میں مودٔب کھڑا رہا حالانکہ موسم سردتھا اور بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر مانگی ہوئی ساری دعائیں مجھے اب بھی یاد ہیں توپ کپی کے تبرکات، ایا صوفیہ کا ماحول، قونیہ کی گلیاں اور وہ بغیر چھت والا مزار، سلمان عالیشان کا مقبرہ اور اپنی ایک ترک بھابی مہوش کی مہمان نوازی اور اپنے اہلخانہ سے اس کی محبت،دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس کی اتنی یادیں اوریادگاریں میرے گھر میں ہوں جتنی ترکی کے شہروں کی، مجھے زندہ حکمرانوں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی لیکن اتاترک کی ایک نایاب تصویر کے ساتھ میری تصویر مجھے بہت عزیز ہے جس میں مصطفیٰ کمال جیسا ملٹری جینئس مغربی جلوس میں محو رقص ہے اور مصطفیٰ کمال پر ’’گوے ولف ‘‘ نام کی وہ کتاب جو مجھے میرے والد مرحوم نے 8ویں 9ویں کلاس میں گفٹ کی اور کہا ’’پڑھنے کے بعد میرے ساتھ ڈسکس کرنا‘‘ پرویز مشرف صاحب نے ٹیک اوور کے بعد مصطفیٰ کمال کو اپنا آئیڈیل قرار دیا تو میں نے اسی کتاب سے کمال کی تصویروں کے حوالے دے دے کر عرض کیا کہ آپ مصطفیٰ کمال بننا افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔مختصراً یہ کہ ترکی سے محبت اٹل اور یوں بھی وہ کون ہے جو اس کے سحر میں مبتلا نہ ہو لیکن پھر وہی بات کہ اعتدال اور میانہ روی کی ہدایت اور روایت کدھر گئی یا شاید ہماری تاریخ ہی کچھ ایسی ہے کہ ہم توازن برقرار رکھ ہی نہیں سکتے کیونکہ محمود غزنوی بھی ترک تھا، امیر تیمور بھی اپنے قلمی شہسوار مظہر برلاس کی طرح ترک قبیلے برلاس کا وہ عظیم فاتح تھا جس نے ترکی جاکر بایزید یلدرام کو شکست دیکر کچھ عرصہ کیلئے سلطنت عثمانیہ کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ دونوں ہی مسلمان بھی تھے اور ترک بھی لیکن حکمرانی کسی اور شے کا نام ہے اور تو اور ہمارے ’’مغل‘‘ بھی ترک تھے گھر میں ترکی زبان بولتے اور ان کے بانی ظہیر الدین بابر کی سوانح بھی ترکی زبان میں ہی لکھی گئی تھی اور یہ بابر ہی تھا جس نے پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دی اور وہ میدان جنگ میں داد شجاعت دیتا ہوا مارا گیا یعنی ترکوں کے ساتھ ہمارا تعلق ہی ایسا ہے کہ توازن قائم رکھنا آسان نہیں اور عربوں کے ساتھ تو ظاہر ہے معاملے کی نوعیت بالکل ہی مختلف ہے کہ حجاج بن یوسف کے بھیجے ہوئے محمد بن قاسم نے ہی باب الاسلام کی بنیاد رکھی۔ گورے بھی ہمارے حکمران رہ چکے بلکہ اب بھی ہیں لیکن وہ غاصب تھے ’’اب بھی ہیں ‘‘ میں نے اس لئے لکھا کہ ’’آزادی‘‘ کے بعد ہم امریکنوں کے عشق میں مبتلا ہو گئے اور عشق بھی غلامی ہی کی ایک قسم ہے اور امریکن گورا بھی برطانوی، یورپی گوروں کی ہی ایک شاخ ہے ۔ مختصراً یہ کہ قابل ذکر اقوام عالم میں لے دے کے اک چینی ہی رہ گئے تھے جن کے ساتھ ہمارے برادرانہ و عاشقانہ تعلقات میں کچھ کمی ،کچھ کسر محسوس ہوتی تھی جو تیزی سے دور ہو رہی ہے بلکہ ہو چکی ہے کیونکہ ہماری ان کی دوستی ’’سمندروں سے گہری، پہاڑوں سے اونچی، شہد سے میٹھی اور فولاد سے مضبوط‘‘ پائی گئی ہے ۔ اللہ اسے نظر بد سے محفوظ رکھے کہ ہم تعلقات میں حد سے گزرتے وقت اعتدال اور میانہ روی پر نگاہ غلط ڈالنے کے عادی بھی نہیں ۔ یہ عاشقی معشوقی اپنی جگہ اور بالکل بجا لیکن عزت، محبت، احترام، بھائی چارے اور خوشامد میں فرق ہوتا ہے ۔ شاہی قلعہ میں آپ معزز مہمان کی مچھلی، سوپ، کباب، چانپوں، ہڑیسہ چھوڑ مہینوال کی طرح اپنے کبابوں سے بھی تواضع کرتے تو کم تھا ۔ترک صدر کی تشریف آوری سے دو دن پہلے بھی شہر بند کرا دیتے تو درست تھا لیکن پاک ترک سکولوں اور ان کے معزز و محترم اساتذہ کے ساتھ آپ نے کیا کیا ؟کیا ایک بھائی کی عزت افزائی کیلئے دوسرے بھائیوں کی توہین و تذلیل اتنی ہی ضروری تھی جتنی آپ نے روا رکھی کہ ان کے ویزے منسوخ کرکے ’’راتوں رات ‘‘ ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا اور آپ کو یہ اطلاع اتنی دیر سے کیوں ملی کہ فتح اللہ گولن کی تنظیم پاکستان کیلئے بھی خطرہ ہے ۔مجھے ذاتی طور پر ذلت، شرمندگی اور ندامت محسوس ہو رہی ہے اور میں اپنے ہر ترک بھائی سے معذرت خواہ ہوں کہ ان کے مشنری ٹائپ ہم وطنوں کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے جوش خوشامد میں ایسی بدسلوکی روا رکھی ۔خود میراذاتی المیہ سن لیں میں نے اک اتنے ہی اچھے سکول سے اپنے بیٹوں حاتم اور ہاشم کو اٹھا کر پاک ترک سکول میں یہ سوچ کر داخل کرایا تھا کہ میرے بیٹے ترکی زبان سیکھ سکیں گے وہ یہ زبان بولنے بھی لگے جب اردوان حکومت اور گولن موومنٹ کے درمیان ٹینشن شروع ہوئی تو اپنے حکمرانوں کی ذہنیت سے واقف میری چھٹی حس نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں بچوں کو پاک ترک سکول سے کہیں اور شفٹ کر دوں جو نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے کر دیا ۔ ہمارے حکمران خود کو پاکستان سمجھنے کے مرض میں مبتلا ہیں اور نہیں جانتے کہ افراد....ملک نہیں ہوتے جیسے شاہ ایران، ایران نہیں تھا، معمر قذافی لیبیا، حسنی مبارک مصر اور صدام حسین عراق نہیں تھا ....اسی طرح تمام تر محبت و احترام کے باوجود اردوان آج ہیں، کل نہیں ہوں گے ..... اردوان ترکی نہیں ہے۔ترک تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے انشا اللہ اعتدال، احتیاط اور انصاف سے کام لو .....گولن کی تنظیم میں بھی ترک ہی موجود ہیں ۔ 

.
تازہ ترین