• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں اہل مغرب کو نسل پرستی کا طعنہ نہیں دیتا کہ اس حوالے سے ہم ان سے پیچھے نہیں ہیں تاہم اس وقت میں آپ کو زمبابوے کے صدر رابرٹ موغابے کی تقریر کے چند جملے سنانا چاہتا ہوں جو انہوں نے اس حوالے سے کی اور پھر ایک کاٹ دار جملے سے نسل پرستوں کی ایسی بھد اڑائی کہ اس سے پہلے کیا کسی نے اڑائی ہوگی۔
رابرٹ نے کہا کہ نسل پرستی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک سفید کاروں میں کالے ٹائر استعمال کئے جاتے رہیں گے۔
جب تک لوگ کالے رنگ کو بدقسمتی اور سفید رنگ کو خوش قسمتی کی علامت کے طور پر بیان کریں گے۔
جب تک لوگ سفید رنگ کے کپڑے شادی بیاہ پر اور کالے رنگ کا لباس فوتیدگی پر پہنیں گے!
نسل پرستی اس وقت تک کیسے ختم ہوسکتی ہے جب تک ٹیکس دینے والے وائٹ لسٹیڈ اور نہ دینے والے بلیک لسٹیڈ کہلائیں گے۔
جب تک اسنوکرکھیلتے ہوئے کالے گیند سوراخ میں ڈمپ نہیں کئے جاتے اور سفید گیند مستقل میز ہی پر رہتا ہے!
یہ سب کچھ کہنے کے بعد رابرٹ نے ایک قہقہہ لگایا، سامعین پر ایک نظر ڈالی اور کہا ’’لیکن مجھے ان باتوں کی کوئی پروا نہیں کیونکہ میں سفید رنگ کی اوقات سے واقف ہوں، میں روزانہ سفید ٹائلٹ پیپر سے اپنی گندگی صاف کرتا ہوں۔‘‘
میں نہیں جانتا کہ اس جلسے میں اگر سفید فام بھی موجود تھے تو ان کا کیا حال ہوا ہوگا، اگر تو وہ سخن فہم تھے تو ان جملوں سے وہ لطف اندوز بھی ہوئے ہوں گے جو رابرٹ موغابے نے نسل پرستی کے حوالے سے باتیں کرتے ہوئے ان امتیازی رویوں کی بات نہیں کی جو خاصی بہتری کے باوجود آج بھی سفید فام کالے لوگوں سے روا رکھتے ہیں بلکہ اس کی بجائے کالے ٹائر، کالا لباس، اور کالا گیند وغیرہ کے ذریعے گفتگو کی تلخی کو شگفتگی میں تبدیل کردیا اور آخری جملے سے گوروں کی وکٹ اڑا دی۔
ویسے اس موضوع پر میں بھی ایک کالم لکھ چکا ہوں اور اس میں، میں نے وہی بات کی تھی جو کالم کے آغاز میں کہی کہ رنگ و نسل کے حوالے سے ہمارے تعصبات بھی کسی سے کم نہیں، بلکہ ہم تو شاید گوروں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں، ناجائز کی کمائی ہوئی دولت کو ہم بھی کالا دھن ہی کہتے ہیں، کالی بلی رستہ کاٹ جائے توہم سفر ملتوی کردیتے ہیں، نئی کار خریدیں تو نظر بد سے بچنے کے لئے اس کے پیچھے کالے رنگ کی پٹی باندھ دیتے ہیں۔ ویگنوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے’’جلنے والے کا منہ کالا‘‘۔ کالوں سے شادی صرف اس صورت میں کی جاسکتی ہے اگر اس کے پاس ڈھیر سارا کالا دھن ہو۔ ہمارے اسٹیج ڈراموں کی بنیاد ہی کالے رنگ کا تمسخر اڑانے پر ہے، مارکیٹ میں ڈھیر ساری کریمیں کالے رنگ کوسفید کرنے کے دعوے کے ساتھ بکتی ہیں، ہمارے ہاں بھی کالا رنگ ماتمی ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیسے کیسے سفید مگر ’’چول‘‘ چوروں کو خوبصورت خد و خال والے کالے افراد پر ترجیح دی جاتی ہے!
بات صرف رنگت ہی کی نہیں، ذات پات کی بھی ہے، آرائیں، گوجر، کشمیری، جاٹ سب اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں اور آپس میں حتی المقدور شادی بیاہ سے گریز کرتے ہیں، مغرب میں گورے ہیں یا کالے، اس کے بعد ان میں کوئی جاٹ ، کوئی آرائیں، کوئی گوجر اور کشمیر ی ایک دوسرے سے امتیازی رویہ روا نہیں رکھتا۔ ہمارے ہاں تو معاملہ اس سے بھی کچھ آگے کا ہے۔ ذات پات اور رنگ و نسل کے علاوہ صوبوں ہی نہیں، ایک صوبے کے شہروں کے باسیوں کے حوالے سے منفی رائے قائم کی گئی ہے۔ فلاں شہر کے لوگوں پر کبھی اعتبار نہ کرو، فلاں شہر میں جائو تو اپنی جوتی کی حفاظت کرو، فلاں شہر کے باشندے اور سانپ کو یکجا دیکھو تو سانپ کو چھوڑ دو اور اس شہر کے رہنے والے کو مار دو کیونکہ وہ سانپ سے زیادہ زہریلا ہے۔ ہم لوگ ذات پات، صوبوں اور شہروں کے تعصب کے علاوہ جس بہت موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں اس کا تعلق اس طبقے سے ہے جو گو تعدادمیں زیادہ نہیں، جو مسلکی اختلاف کی بنیاد پر دوسرے کو جینے کا حق نہیں دیتا۔ اس طبقے کو ہمارے درمیان پیدا کیا گیا، اس کی نشو و نما کی گئی، مقصد ملک میں خانہ جنگی تھا، ہمسایوں کا ایک دوسرے پر حملہ آور ہونا تھا، گلی گلی، کوچے کوچے اور خاندانوں تک میں باہمی قتل و غارت گری کی فضا پیدا کرنا تھا، مگر خدا کا شکر ہے کہ دشمن اس میں کامیاب نہیں ہوا اور اس کے بعد وہ سب مسالک کے لوگوں پر باری باری حملہ آور ہوتا رہا اور ہو رہا ہے تاکہ وہ یہ سمجھیں کہ ان کو مارنے ولا فلاں مسلک کا ہے مگر دشمن اپنی اس چال میں کامیاب نہ ہوسکا کہ ہم سب کو پتہ ہے کہ ہم سب کو مارنے والا ایک ہی ہے۔
بات کہیں کی کہیں نکل گئی، بات کا آغاز گورے اور کالے رنگ سے ہوا تھا اور میں چاہتا ہوں کہ دل کو خوش رکھنے کے لئے اختتام کسی مثبت بات پر کروں، چنانچہ میں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر وہ گیت آ پ کے لئے نکالا ہے جس کے بول ہیں ’’ کالا شاکالا، میرا کالا اے دلدار تے گوریاں نوں پرے کرو۔ اس گیت کی موجودگی میں امید ہے کہ ہمیں کوئی نسل پرست ہونے کا طعنہ نہیں دے گا۔
اس آخری جملے پر ہنسنا بلکہ مسکرانا تک منع ہے، خلاف ورزی پر سمجھا جائے گا کہ آپ مجھے حقیقت سے نظریں چرانے والا شخص سمجھتے ہیں۔


.
تازہ ترین