• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترک قوم کو مسلم امہ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ خلافت عثمانیہ کے حوالے سے مسلمانوں کی اکثریت ترکی سے قربت رکھتی ہے۔اس حوالے سے برصغیر کے مسلمانوں اور ترک قوم کے گہرے روابط بھی رہے ہیں۔ترک سمجھتے ہیں کہ خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لئے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔بلکہ 1914میں برصغیر کے مسلمانوں کی جانب سے خلافت عثمانیہ کے حق میں چلنے والی تحریک کو ترک قوم کیسے بھول سکتی ہے۔مسلمان خواتین اور بچیوں نے خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لئے اپنے جو زیورات نچھاور کئے تھے۔آج بھی ترک اس کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔قارئین کو یاد ہوگا کہ جب طیب اردوان اور ان کی اہلیہ پی پی پی دور میں پاکستان آئے تھے تو پاکستان سے واپسی پر ترک خاتون اول نے اپنا ہیرے جواہرات کا ہار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ کو دے دیا تھا۔ہا ر کی قیمت کوئی اتنی زیادہ نہیں تھی اور نہ ہی ہار دینے کا مقصدکسی مستحق تک پہنچانا تھا ،بلکہ علامتی طور پر ترک خاتون اول کی طرف سے پاکستان کی ان خواتین کی قربانیوں کو یاد کیا گیا تھا جنہوں نے خلافت عثمانیہ بچانے کے لئے اپنے زیورات بھی ترک بھائیوں کو دے دئیے تھے۔شاید ہمارے سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کے لئے تووہ شاید محض چند لاکھ مالیت کا ہار ہو مگر تاریخ میں امینہ اردوان کے ہار کی قیمت کئی سو اربوں سے بھی زیادہ تھی۔اچھا ہوا کہ سابق وزیراعظم کے گھر سے ایف آئی اے نے ہار برآمد کرلیا مگر اب اس ہار کو وزیراعظم ہاؤس یا کسی تاریخی میوزیم کی دیوار پر سجانا چاہئے۔تاکہ ترک قوم کے خلوص کو پاکستانی قوم صدیوں یاد رکھ سکے۔آج طیب اردوان کا دورہ کسی ایک سربراہ مملکت کا دورہ نہیں تھا۔بلکہ ہم پاکستانیوں کے لئے خلافت عثمانیہ کے سربراہ کا دورہ تھا۔برصغیر کے مسلمانوں اور ترک بھائیوں میں دلی محبت ہے اسی لئے پہلی جنگ عظیم کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے ہندوستان میں برطانوی سامراج کےدورمیں جو تحریک چلائی تھی۔اس کا پہلا نکتہ بھی یہی تھا کہ "خلافت عثمانیہ کی وہی حیثیت بحال کی جائے جو جنگ عظیم اول سے پہلے تھی"اس لئے بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہمارے لئے طیب اردوان کے دورے کی خاصی اہمیت تھی مگر کچھ عناصر نے روایتی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے برادر ملک کے سربراہ کے خطاب کا بائیکاٹ کیا۔جوتحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ایک اور غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا۔شاید انہوں نے پولٹیکل سائنس کی ڈگری تو حاصل کی ہے مگر پڑھی نہیں ہے۔بلکہ مجھے اس سے ہمارے دوست برادرم ڈاکٹر شاہ کی بات یاد آگئی۔ڈاکٹر صاحب! بڑے زیرک اور دانا آدمی ہیں۔جب کوئی بیوروکریٹ یا سیاستدان ڈاکٹر صاحب سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتاکہ "میں ایچی سونین ہوں"تو ڈاکٹر صاحب مسکراتے ہوئے ازراہ تفنن کہتے کہ آپ ایچی سن میں رہتے رہے ہیں یا پڑھتے رہے ہیں۔ایک مرتبہ اس خاکسار نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ اس بات کاکیا مطلب ہے تو ڈاکٹر صاحب کہنے لگے دراصل ایچی سن میں طلباء کے دو طرح کے طبقے ہیں ،ایک وہ جو وہاں پڑھتے ہیں اور دوسرے وہ جو صرف وہاں رہ کر بورڈنگ میں وقت گزارتے ہیں۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران کے حوالے سے مجھے یہ مقولہ یوں یاد آیا کہ شاید عمران خان صاحب بھی ایچی سن اور آکسفورڈ میں صرف رہتے رہے ہیں۔ کیونکہ جس شخص نے تاریخ اور سیاسیات کو تھوڑا، بہت بھی پڑھا ہے۔وہ ترک قوم اور خلافت عثمانیہ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ہمارے ترک قوم سے تعلقات کوئی 60یا 70سال پرانے نہیں ہیں بلکہ یہ تعلقات کئی سو سال پرانے ہیں۔ایسے ملک کے سربراہ کے خطاب کا بائیکاٹ کرناسیاسی نابالغی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ایسے اقدامات کرکے آپ دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ جی ہاں ! ہمیں سیاسی آداب کے ساتھ ساتھ سفارتی آداب بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ کیبل کالج آکسفورڈ سے فلسفہ اور سیاسیات پڑھنے والا شخص کبھی بھی ایسا نہیں کرسکتا کہ ترک جیسے صدیوں پرانے دوست ملک کے سربراہ کے خطاب کو خدا حافظ کہہ کر برطانیہ دوست کی شادی میں شرکت کے لئے چلا جائے۔
ایچی سن کی اسکولنگ اور آکسفورڈ کی اعلیٰ تعلیم تو دور کی بات ہے ،جس شخص نے تھوڑی بہت بھی سیاسیات پڑھی ہو ،اسے ترکی کی اہمیت کا اتنا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ ایسی بچگانہ حرکت نہیں کرتا۔اس لئے خان صاحب کے حوالے سے ایچی سن اور آکسفورڈ میں صرف رہنے کی مثال دی ہے۔جب کہ ترک صدر کے دوروزہ دورہ پاکستان کا ایک اہم پہلو جمہوریت کی مضبوطی سے بھی جڑا ہوا ہے۔گزشتہ تین سالوں میں وزیراعظم نوازشریف سیاسی شطرنج میں اپنے پتے بہت خوبصورتی سے کھیلتے آرہے ہیں۔جن دنوں پاکستان میں فوج اور حکومت کے درمیان سرد مہری پر کھل کر بات کی جارہی تھی ان دنوں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کا واقعہ سامنے آگیا۔دنیا بھر میں جمہوریت کے متوالوں کے لئےیہ ایک بہت بڑا دن تھا۔مگر اس سے ہٹ کر ترک ناکام بغاوت کے گہرے اثرات ملکی حالات پر بھی رونماہونا شروع ہوئے۔موثر دلائل دئیے جانے لگے کہ ترک اور پاکستانی قوم کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔بنیادی طور پر ترک قوم کی جدوجہد کرنے کی تاریخ کئی سو سال پرانی ہے۔اس لئے پاکستان میں اگر ایسا کچھ ہوا تو عوام سڑکوں پر نہیں آئیںگے۔اکثر اوقات لکھتا ہوں کہ سول عسکری تعلقات میں دونوں ادارے ایک دوسرے سے برابر کے خوفزدہ ہوتے ہیں۔عسکری حکام ہر وقت سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو سول حکومت کیا کرے گی اوریہی حال سویلین حکومت کا بھی ہوتا ہے۔اس لئے ترک ناکام بغاوت کے بعد خاص حلقوں میں اسے بہت سنجیدہ لیا گیاتھا اور اس کے بعد مزید محتاط رہنے کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی۔جس سے جمہوری حکومت کے لئے مزید بہتر صورتحال پیدا ہوگئی اور یہ سب ترک بغاوت کی ناکامی کے بعد ہوا تھا۔آج بھی ایسے موقع پر ترک صدر کا دورہ پاکستان کسی خاص پیغام سے کم نہیں تھا۔ترک صدر کا دورہ کوئی ہنگامی یا ایک ہفتہ قبل پلان نہیں کیا گیا تھا۔بلکہ اس سطح کے دورے کئی ہفتوں پہلے طے کئے جاتے ہیں اور دونوں ممالک کی ہم آہنگی اور مشاورت سے حتمی تاریخ رکھی جاتی ہے۔ایک ایسے وقت پر جمہوریت کے شہنشاہ طیب اردوان کا دورہ پاکستان جب اہم فیصلوںکا وقت سر پر پہنچ چکا ہے۔دراصل وزیراعظم نوازشریف نے سیاسی شطرنج میں آخری "تُرک کا پتہ"بھی ایسی خوبصورتی سے پھینکا ہے کہ فتح ان کے قدم چوم رہی ہے۔




.
تازہ ترین