• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست بھلے انسانوں کی آسمانی سرگرمی قرار دی جائے جس سے لاکھوں کروڑوںبندگان خدا کی خوشیاں اورزندگیاں وابستہ ہوتی ہیںیا اسے عبادت کے درجہ پر فائز کیا جائے لیکن بہرحال سیاست ہوتی ہے کہ جس کے سینے میں دل ہوتا ہے اور نہ تہہ میںلگے بندھے اصول۔ اسے بساط شطرنج پر مہرے چلنے کا کھیل سمجھا جائے تو سیاستدانوں کی چالوں اور کھیل کے نتائج پر حیرانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔جس سیاست کے دور میں ہم سانس لئے جا رہے ہیں یہ اتنی ہی پیچیدہ ، متلون، ظالم، بے اصول اور غیر یقینی ہے جتنا وہ معاشی نظام جس کے بالائی ڈھانچے کی یہ محافظ و مظہر ہے۔ نظام سرمایہ داری کی امین سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بطن سے اس کے دارا لسلطنت امریکہ میں اسٹاک ایکسچینج میں کبھی کبھار واقع ہونے والے بڑے دھماکوں کی طرح جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے دھماکے سے امریکہ سمیت پوری دنیااور اس کا میڈیا مبتلائے حیرت واستعجاب ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہوجانے کے امکانات پر غور کرنا تو دور،ان کے انٹراپارٹی مراحل طے کر کے صدارتی امیدوار منتخب ہونے کے واقعہ کو امریکی پریس نے ریپبلکن پارٹی کے داخلی دیوالیہ پن سے تعبیر کیا تھا ۔انتخابی مہم کے دوران اُن کے طرز تکلم، بدنی حرکات وسکنات، اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی ، مخالف کیمپ کے خلاف دریدہ دہنی اور غیر سفید فام امریکی باشندوں کے خلاف اشتعال انگیز نظریات کی بنا پر وہ امریکی اور عالمی میڈیا پر غیر موزوں صدارتی امیدوار کے طور پر لئے گئے۔ ان کے مدمقابل ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن جنہیں امریکہ کی خاتون اول، سینیٹر اور وزیر خارجہ رہنےکے اعزازات حاصل تھے ، یہی نہیں بلکہ ذاتی اوصاف کے حوالے سے وہ دنیا بھر میں انتہائی شستہ و شائستہ، مہذب، باوقار، متوازن اور امن پسند شخصیت کے حوالے سے جانی جاتی تھیںلہٰذادونوں کے تقابلی جائزے کی بنا پرہیلری کلنٹن کے حوالے سے یہ صدارتی انتخاب دنیا بھر کے میڈیا کی طرف سے یک سمتی قرار دیا جا رہا تھا۔عالمی توجہ کے اعتبار سے امریکی تاریخ کے گرم ترین اس صدارتی انتخاب کا نتیجہ سامنے آنے پر دنیا بھر کے بذعم خود بقراط ، تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں کے تمام معائنے، جائزے، اعدادو شمار،نقشے، گوشوارے، پڑتالیں اور مساختیں برسر غلط ٹھہرے۔اس نتیجے نے ثابت کیا کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا رائے عامہ پر کسی حد تک تو اثر انداز ہو سکتا ہے لیکن مطلق طور پر ہرگز نہیں اور یہ کہ چڑیا سے اندر کی بات باہر لے آنے اور ایئرکنڈیشن تحقیق گاہوں میں بیٹھ کر ہمہ وقت عوامی موڈ کے اندازوں میں غلطاں سیاسی محققین سے لیکر خفیہ اداروں تک کے اندازے زمینی حقائق سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
یادش بخیر! امریکہ کے زیر موضوع صدارتی انتخاب کے حوالے سے راقم الحروف کی نظروں کے سامنے پاکستان کے 1970میں منعقدہ عام انتخابات کا منظر گھوم گیا ہے جس کے پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی حکمت سے لے کر اس کے ردعمل میں ’’معقول‘‘لوگوں کی آرا، پریس کے رویے، ماہر سیاسی نقشہ نویسوںاور طوطا فال کے ماہرین کی پیشگویوں، خفیہ اداروں کی رپوتاژوں اور برآمد ہونے والے نتائج میں گہری مماثلت ابھر ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی ملکی وغیر ملکی میڈیا نے وہی سلوک روا رکھا تھا جس کا سامنا ڈونلڈ ٹرمپ کو کرنا پڑا ہے انہی کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو بھی جھوٹا، بے اصول، غیر سنجیدہ ، نفرتیں پھیلانے والا ،مجہول الننصب اور مداری قرار دیا جاتا رہا مگر عوام نے یہ سب کچھ بالائے طاق رکھ کر اسی طرح ذوالفقا ر علی بھٹو کے حق میں فیصلہ صادر کیاتھا جس طرح حالیہ امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں کیا ہے۔
امریکہ کے انفراسٹرکچرکی ظاہر آب و تاب، دیگر اقوام پر اس کے عسکری رعب داب اور اس کے قومی وحدت و انجذاب کے تصور کے علیٰ الرغم، اُس کی قومی معیشت بیرونی مہم جوئی کے بوجھ تلے دبتی چلی جا رہی ہے ۔جس سے مقامی آبادی کے اغلب حصے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔سوشل سیکورٹیز میں کمی ، براہ راست اوربالواسطہ ٹیکسیز میں اضافے اور بے روزگاری کی بڑھتی شرح کی وجہ سے "خالص" امریکی شہری بے چینی کا شکار چلے آرہے ہیںاس کی ذمہ دار ی وہ غیر سفید فام امیگرنٹس کے سر باندھتے ہیںکیونکہ یہ لوگ کم اُجرتوں پر کام کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنے کی بنا پر اُن پر روزگار کے دوازے بند کر نے کا باعث سمجھے جاتے ہیں۔ ان سے دوسرا خطر ہ ان کی نسلی شرح افزائش کے حوالے سے محسوس کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں وہ اپنے آپکو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میںتبدیل ہوتے محسوس کرتے ہیں۔ ویسے بھی رواں دور قوموں کی نسلی ،تہذیبی اور اعتقادی حوالوں سے اپنی تاریخی شناختوں کی طرف رجوع کا دور ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح روح اثر کو سمجھتے ہوئے وہ سیاسی کارڈ کھیلا جو سر زمین امریکہ پر جیت کے سارے امکانات اپنے اندر سموئے ہوئے تھا یعنی نسلی امتیازی اور خالص امریکی شہری کی معاشی بہتری کے امکانات کا کارڈ۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 1492میں حکومت کے ایماپر اسپین کے ملاح کولمبس کے ایشیا کو ملانے والے سمندری راستے کی کھوج میں بھٹک کر براعظم امریکہ پر جا اُترنے کے عمل نے یورپ کے مختلف ممالک کے باشندوںپر وہاں نقل مکانی کی راہیںکھولی تھیںجن کے اختلاط سے آج کی امریکی قوم وجود میں آئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انہی کی نئی نسل کو غیر سفید فام امیگرنٹس کے خلاف بھڑکا کر جیت اپنا مقدر کی ہے ۔ یہ نکتہ جواب طلب ہے کہ وہ امریکہ کو امکانات کی سرزمین سمجھ کر اس پر آبسے مختلف قوموں اور ملکوں کے باشندوں کے خلاف کس اخلاقی اور ملکی قانون کے تحت اقدامات کر پائیں گے .... !
آئندہ سو دنوں میں یہ طے پا جائیگا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اپنے انتخابی وعدوں سے انحراف کرتے ہیںیا اُسی جانب قدم اُٹھاتے ہیںجس کا انہوںنے انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام سے وعد ہ کیا تھا ۔ پاکستان کے حوالے سے نو منتخب امریکی صدر کے عزائم ہرگز ڈھکے چھپے نہیں ہیںان سے آگاہی کے لئے اُن کا وہ اعلامیہ ہی کافی ہے جس میں انہوں نے ہندو مذہب کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے واضح الفاظ میں بھارت کو پیغام دیا تھا کہ اُن کی وائٹ ہائوس میںموجودگی کا مطلب بھارت کے بہترین دوست کی موجودگی کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ ہمارے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو امریکہ پر انحصار کئے بغیرجینے کی راہیںتلاش کرنے میں اب دیر نہیںکرنی چاہئے۔




.
تازہ ترین